باب: جب کتا شکار میں سے خود کھالے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: If a hound eats (of the game))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے سورۃ مائدہ میں فرمایا کہ ” آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز کھانی ہمارے لیے حلال کی گئی ہے ، آپ کہہ دیں کہ تم پر کل پاکیزہ جانور کھانے حلال ہیں اور تمہارے سدھائے ہوئے شکاری کتوں اور جانوروں کا شکار بھی جو شکار پر چھوڑ جاتے ہیں ۔ تم انہیںاس طریقہ پر سکھاتے ہو جس طرح تمہیں اللہ نے سکھایا ہے سو کھاؤ اس شکار کو جسے ( شکاری جانور یا کتا ) تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں ، اللہ کے قول ” بےشک اللہ حساب جلد کر دیتا ہے ۔ “ تک ابن عباس ؓ نے کہا کہ اگر کتے نے شکار کا گوشت خود بھی کھالیا تو اس نے شکار کو ناپاک کردیا کیونکہ اس صورت میں اس نے خود اپنے لیے شکار کو روکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورہ میں فرمانا کہ تم انہیں سکھاتے ہو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے “ اس لیے ایسے کتے کو پیٹا جائے گا اور سکھایا جاتا رہے گا ، یہاں تک کہ شکار میں سے وہ کھانے کی عادت چھوڑ دے ۔ ایسے شکار کو ابن عمر رضی اللہ عنہما مکروہ سمجھتے تھے اور عطاءنے کہا کہ اگر صرف شکار کا خون پی لیاہو اور اس کا گوشت نہ کھایا ہو تو تم کھا سکتے ہو ۔عطاءکا قول احتیاط کے خلاف ہے لہٰذا ایسے شکار سے بھی پرہیز مناسب ہے۔
5483.
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار پرچھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ اسے مار ہی ڈالیں لیکن اگر کتا شکار میں سےخود بھی کھا لے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا۔ اگر تمہارے کتوں کے علاوہ دوسرے کتے بھی شریک ہو جائیں تو ایسے شکار کو مت کھاؤ۔“
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کتا اگر شکار کرنے کے بعد خود اس میں سے کھا لے تو اسے نہیں کھانا چاہیے کیونکہ اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا تھا لیکن ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ اگر کتا اس میں سے خود بھی کھا لے تو بھی مالک کے لیے اس کا کھانا جائز ہے۔ (سنن أبي داود، الصید، حدیث: 2852) محدثین نے ان احادیث میں تطبیق کی کئی ایک صورتیں بیان کی ہیں جو حسب ذیل ہیں: ٭ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ابوداود کی حدیث کو داود بن عمرو کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (عمدة القاري: 476/14) لیکن جو روایت ہم نے ذکر کی ہے اس میں یہ راوی نہیں ہے۔ وہ حدیث: 2848 میں ہے۔ یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ ٭ اس کی تاویل اس طرح کی گئی ہے کہ شکاری کتے نے شکار پکڑ کر مار ڈالا اور اسے مالک کے لیے رکھ چھوڑا، خود وہاں سے دور چلا گیا، پھر دوبارہ واپس آ کر اس سے کچھ کھا لیا تو اس حالت میں مالک کے لیے کھانا جائز ہے، ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ چونکہ غریب اور نادار تھے، اس لیے ان کے لیے اجازت دی گئی حضرت عدی بن حاتم مال دار تھے ان کے لیے اجازت نہ دی گئی۔ بہرحال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اور پہلو بھی ذکر کیے ہیں، (فتح الباري: 745/9) تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ اگر کتا خود کھا لے تو مالک اسے نہ کھائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5273
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5483
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5483
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5483
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
پوری آیت کریمہ کا ترجمہ حسب ذیل ہے: "لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال کیا گیا ہے؟ آپ ان سے کہہ دیں کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں اور ان شکاری جانوروں کا شکار بھی جنہیں تم نے اس طرح سدھایا ہو جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھایا ہے، لہذا جو شکار وہ تمہارے لیے روکے رکھیں وہ کھا سکتے ہو؟ اور انہیں چھوڑتے وقت اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔" (المائدہ: 5/4) شکاری جانوروں میں شکاری پرندے بھی شامل ہیں، جیسے: باز اور شکرا وغیرہ، یعنی جس جانور کو بھی یہ بات سکھائی گئی ہو کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے روکے گا، خود اس میں سے کچھ نہیں کھائے گا، اگر شکاری جانور شکار میں سے کچھ کھا لے تو مالک کے لیے کھانے کی صلاحیت سے نکال دیتا ہے اور اسے خراب کر دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عطاء سے نقل کیا ہے کہ اگر شکاری کتے نے شکار کا صرف خون پیا ہے اس سے کچھ نہ کھایا ہو تو اسے کھایا جا سکتا ہے۔ یہ احتیاط کے خلاف ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس قسم کے شکار سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم
اور اللہ نے سورۃ مائدہ میں فرمایا کہ ” آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز کھانی ہمارے لیے حلال کی گئی ہے ، آپ کہہ دیں کہ تم پر کل پاکیزہ جانور کھانے حلال ہیں اور تمہارے سدھائے ہوئے شکاری کتوں اور جانوروں کا شکار بھی جو شکار پر چھوڑ جاتے ہیں ۔ تم انہیںاس طریقہ پر سکھاتے ہو جس طرح تمہیں اللہ نے سکھایا ہے سو کھاؤ اس شکار کو جسے ( شکاری جانور یا کتا ) تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں ، اللہ کے قول ” بےشک اللہ حساب جلد کر دیتا ہے ۔ “ تک ابن عباس ؓ نے کہا کہ اگر کتے نے شکار کا گوشت خود بھی کھالیا تو اس نے شکار کو ناپاک کردیا کیونکہ اس صورت میں اس نے خود اپنے لیے شکار کو روکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورہ میں فرمانا کہ تم انہیں سکھاتے ہو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے “ اس لیے ایسے کتے کو پیٹا جائے گا اور سکھایا جاتا رہے گا ، یہاں تک کہ شکار میں سے وہ کھانے کی عادت چھوڑ دے ۔ ایسے شکار کو ابن عمر رضی اللہ عنہما مکروہ سمجھتے تھے اور عطاءنے کہا کہ اگر صرف شکار کا خون پی لیاہو اور اس کا گوشت نہ کھایا ہو تو تم کھا سکتے ہو ۔عطاءکا قول احتیاط کے خلاف ہے لہٰذا ایسے شکار سے بھی پرہیز مناسب ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار پرچھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ اسے مار ہی ڈالیں لیکن اگر کتا شکار میں سےخود بھی کھا لے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا۔ اگر تمہارے کتوں کے علاوہ دوسرے کتے بھی شریک ہو جائیں تو ایسے شکار کو مت کھاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کتا اگر شکار کرنے کے بعد خود اس میں سے کھا لے تو اسے نہیں کھانا چاہیے کیونکہ اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا تھا لیکن ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ اگر کتا اس میں سے خود بھی کھا لے تو بھی مالک کے لیے اس کا کھانا جائز ہے۔ (سنن أبي داود، الصید، حدیث: 2852) محدثین نے ان احادیث میں تطبیق کی کئی ایک صورتیں بیان کی ہیں جو حسب ذیل ہیں: ٭ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ابوداود کی حدیث کو داود بن عمرو کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (عمدة القاري: 476/14) لیکن جو روایت ہم نے ذکر کی ہے اس میں یہ راوی نہیں ہے۔ وہ حدیث: 2848 میں ہے۔ یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ ٭ اس کی تاویل اس طرح کی گئی ہے کہ شکاری کتے نے شکار پکڑ کر مار ڈالا اور اسے مالک کے لیے رکھ چھوڑا، خود وہاں سے دور چلا گیا، پھر دوبارہ واپس آ کر اس سے کچھ کھا لیا تو اس حالت میں مالک کے لیے کھانا جائز ہے، ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ چونکہ غریب اور نادار تھے، اس لیے ان کے لیے اجازت دی گئی حضرت عدی بن حاتم مال دار تھے ان کے لیے اجازت نہ دی گئی۔ بہرحال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اور پہلو بھی ذکر کیے ہیں، (فتح الباري: 745/9) تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ اگر کتا خود کھا لے تو مالک اسے نہ کھائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں“ (مکلین) کے معنیٰ ہیں: سدھائے ہوئے۔ (اجترحوا) کے معنیٰ ہیںَ جو انہوں نے کمایا ہے۔ ”اللہ تعالٰی نے جو تمہیں علم دے رکھا ہے، اس میں سے انہیں کچھ سکھاتے ہو، وہ شکاری جانور جو تمہارے لیے پکڑ رکھیں، اس میں سے کھاؤ۔ ۔ جلدی حساب لینے والا ہے۔“ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ اگر کتا شکار میں سے کچھ کھالے تو وہ اسے خراب کردیتا ہے کیونکہ اس نے شکار صرف اپنے لیے روکا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تم ان کو وہی کچھ سکھاؤ جو اللہ تعالٰی نے تمہیں سکھایا ہے“ اس لیے اس کتے مارا جائے اور سکھایا جائے حتیٰ کہ وہ خود کھانا چھوڑدے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے ایسے شکار کو مکروہ کہا ہے۔ حضرت عطاء نے کہا: اگر کتا شکار کا خون پی لے اور اس سے کچھ نہ کھائے تو تم اسے کھا سکتے ہو
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے، ان سے شعبی نے اور ان سے حضرت عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار کے لیے چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ شکار کو مار ہی ڈالیں۔ البتہ اگر کتا شکار میں سے خود بھی کھالے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا اور اگر دوسرے کتے بھی تمہارے کتوں کے سواشکار میں شریک ہو جائیں تو نہ کھاؤ۔
حدیث حاشیہ:
یہ سدھائے ہوئے کتوں سے متعلق ہے اگر وہ شکار کو مار ڈالیں مگر خود کھانے کو منہ ميں نہ ڈالیں تو وہ جانور کھایا جا سکتا ہے مگر ایسے سدھائے ہوئے کتے آج کل عنقا ہیں إلا ماشاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Adi bin Hatim: I asked Allah's Messenger (ﷺ). "We hunt with the help of these hounds." He said, "If you let loose your trained hounds after a game, and mention the name of Allah, then you can eat what the hounds catch for you, even if they killed the game. But you should not eat of it if the hound has eaten of it, for then it is likely that the hound has caught the game for itself. And if other hounds join your hound in hunting the game, then do not eat of it."