Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: An-Nahr and Adh-Dhabh)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جریج نے عطاءسے بیان کیا کہ ذبح اور نحر ، صرف ذبح کرنے کی جگہ یعنی ( حلق پر ) اور نحر کرنے کی جگہ یعنی ( سینہ کے اوپر کے حصہ ) میں ہی ہو سکتا ہے ۔ میں نے پوچھا کیا جن جانوروںکو ذبح کیا جاتا ہے ( حلق پر چھری پھیر کر ) انہیں نحر کرنا ( سینہ کے اوپر کے حصہ میں چھری مار کر ذبح کرنا ) کافی ہوگا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اللہ نے ( قرآن مجید میں ) گائے کو ذبح کرنے کا ذکر کیا ہے پس اگر تم کسی جانور کو ذبح کرو جسے نحر کیا جاتا ہے ( جیسے اونٹ ) تو جائز ہے لیکن میری رائے میں اسے نحر کرنا ہی بہتر ہے ” ذبح “ گردن کی رگوں کا کاٹنا ہے ۔ میں نے کہا کہ گردن کی رگیں کاٹتے ہوئے کیا حرام مغز بھی کاٹ دیا جائے گا ؟ انہوں نے کہا کہ میں اسے ضروری نہیں سمجھتا اور مجھے نافع نے خبر دی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حرام مغز کاٹنے سے منع کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا صرف گردن کی ہڈی تک ( رگوں کو ) کاٹا جائے گا اور چھوڑدیا جائے گا تاکہ جانور مرجائے اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں فرمان اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ بلا شبہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو اور فرمایا ، پھر انہوں نے ذبح کیا اور وہ کرنے والے نہیں تھے ۔ سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ذبح حلق میں بھی کیا جاسکتا ہے اور سینہ کے اوپر کے حصہ میں بھی ۔ ابن عمر ، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اگر سرکٹ جائے گا تو کوئی حرج نہیں ۔تشریح : نحر خاص اونٹ میں ہوتا ہے دوسرے جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ حافظ نے کہا اونٹ کا ذبح بھی کئی احادیث سے ثابت ہے۔ گائے کا ذبح قرآن مجید میں اور نحر حدیث میں مذکور ہے اور جمہور علماءکے نزدیک نحر اور ذبح دونوں جائز ہے۔
5510.
سیدنا اسماء ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے عہد مبارک میں گھوڑا نحر کیا اور اس کا گوشت کھایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5299
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5510
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5510
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5510
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
نحر اونٹ کے ساتھ خاص ہے۔ نحر کے معنی ہیں: اونٹ کے سینے کے اوپر اور گردن کے نیچے برچھا مارنا۔ اونٹ کے علاوہ دوسرے تمام جانور ذبح کیے جاتے ہیں، یعنی ان کے حلق پر چھری چلائی جاتی ہے۔ بہرحال مذبوح جانور کو نحر کرنا اور جس جانور کو نحر کیا جاتا ہو اسے ذبح کرنا، دونوں طرح جائز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ احادیث میں اونٹ کے لیے ذبح اور دیگر جانوروں کے لیے نحر آیا ہے۔ قرآن کریم میں گائے کے لیے ذبح کا لفظ آیا ہے جبکہ احادیث میں اسے نحر کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ بہرحال جمہور اہل علم اسے جائز کہتے ہیں جبکہ ابن قاسم اسے مکروہ خیال کرتے ہیں۔ (فتح الباری: 9/792) ہمارے ہاں عام طور پر ذبح کرتے وقت آناً فاناً شہ رگ کاٹ دی جاتی ہے، پھر جانور کی گردن کو پیچھے کی طرف موڑ کر جھٹکے سے اس کا منکا توڑ دیا جاتا ہے، اس کے بعد چھری کی نوک سے بقایا رگیں کاٹ دی جاتی ہیں اور ساتھ ہی سامنے نظر آنے والے حرام مغز کی رگ کو بھی مکمل طور پر کاٹ دیا جاتا ہے، ایسا کرنا ذبح کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ حرام مغز کے ذریعے سے دماغ اور جسم کا باہمی رابطہ قائم رہتا ہے اور اس کے ذریعے سے خون کی نجاست سے جسم پاک ہوتا ہے۔ حرام مغز کاٹ دینے سے خون زیادہ تر جسم کے اندر ہی رہ جاتا ہے جو انسان کی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے بلکہ اگر دم مسفوح جانور کے اندر ہی رہ جائے تو ایسا جانور نیم حرام ہونے کے زمرے میں آتا ہے۔ واضح رہے کہ ذبح کے لیے قرآن میں لفظ "ذكيتم" آیا ہے، اس سے مراد جانور کو اس طرح ذبح کرنا ہے کہ اس کی جان جلد از جلد اور آسانی سے نکل جائے اور اس کا تعلق چھری کی تیزی اور استعمال میں چابک دستی سے ہے۔ گردن موڑ کر اس کا منکا توڑنا اسے تکلیف در تکلیف میں مبتلا کرنا ہے۔ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کا تمام خون نکل جانے اور ٹھنڈا ہو کر بے حس و بے حرکت ہو جانے تک اس کی کھال اتارنے میں جلدی نہ کی جائے۔
اور جریج نے عطاءسے بیان کیا کہ ذبح اور نحر ، صرف ذبح کرنے کی جگہ یعنی ( حلق پر ) اور نحر کرنے کی جگہ یعنی ( سینہ کے اوپر کے حصہ ) میں ہی ہو سکتا ہے ۔ میں نے پوچھا کیا جن جانوروںکو ذبح کیا جاتا ہے ( حلق پر چھری پھیر کر ) انہیں نحر کرنا ( سینہ کے اوپر کے حصہ میں چھری مار کر ذبح کرنا ) کافی ہوگا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اللہ نے ( قرآن مجید میں ) گائے کو ذبح کرنے کا ذکر کیا ہے پس اگر تم کسی جانور کو ذبح کرو جسے نحر کیا جاتا ہے ( جیسے اونٹ ) تو جائز ہے لیکن میری رائے میں اسے نحر کرنا ہی بہتر ہے ” ذبح “ گردن کی رگوں کا کاٹنا ہے ۔ میں نے کہا کہ گردن کی رگیں کاٹتے ہوئے کیا حرام مغز بھی کاٹ دیا جائے گا ؟ انہوں نے کہا کہ میں اسے ضروری نہیں سمجھتا اور مجھے نافع نے خبر دی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حرام مغز کاٹنے سے منع کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا صرف گردن کی ہڈی تک ( رگوں کو ) کاٹا جائے گا اور چھوڑدیا جائے گا تاکہ جانور مرجائے اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں فرمان اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ بلا شبہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو اور فرمایا ، پھر انہوں نے ذبح کیا اور وہ کرنے والے نہیں تھے ۔ سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ذبح حلق میں بھی کیا جاسکتا ہے اور سینہ کے اوپر کے حصہ میں بھی ۔ ابن عمر ، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اگر سرکٹ جائے گا تو کوئی حرج نہیں ۔تشریح : نحر خاص اونٹ میں ہوتا ہے دوسرے جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ حافظ نے کہا اونٹ کا ذبح بھی کئی احادیث سے ثابت ہے۔ گائے کا ذبح قرآن مجید میں اور نحر حدیث میں مذکور ہے اور جمہور علماءکے نزدیک نحر اور ذبح دونوں جائز ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا اسماء ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے عہد مبارک میں گھوڑا نحر کیا اور اس کا گوشت کھایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ابن جریج نے حضرت عطاء سے بیان کیا کہ ذبح صرف ذبح کرنے کی جگہ یعنی حلق سے ہوتا ہے اور نحر صرف نحر کرنے کی جگہ یعنی سینے کے اوپر سے ہوتا ہے میں نے دریافت کیا کہ جس جانور کو ذبح کیا جاتا ہے کیا اسے نحر کرنا کافی نہ ہوگا؟ انہوں نے کہا: ہاں کافی ہوگا اللہ تعالٰی نے قرآن میں گائے کے لیے ذبح کا لفظ ذکر کیا ہے اگر آپ کسی کو ذبح کریں جسے نحر کرناتھا تو جائز ہے لیکن میں نحر کرنے کو زیادہ پسند کرتا ہوں، زبح میں رگیں کاٹنا ہوتی ہیں۔ میں نے کہا: گردن کی رگیں کاٹتے ہوئے کیا حرام ہوئے کیا حرام مغز بھی کاٹ دیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ میں اسے اچھا نہیں سمجھتا
مجھے نافع نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے خبر دی کہ وہ حرام مغز کاٹنے سے منع کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ جانور کو گردن کی ہڈی تک کاٹ کر چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ ختم ہو جائۓ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ”اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو۔ ۔ ۔ ۔ تو انہوں نے نے اسے ذبح کیا جسے وہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے۔“حضرت سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓسے بیان کیا ہے کہ ذبح حلق اور سینے کے بالائی حصے دونوں سے کیا جاسکتا ہے حضرت ابن عمر ابن عباس اور حضرت انس ؓنے فرمایاؒ اگر سرکٹ جائے تو کوئی حرج نہیں
فائدہ: نحر خاص اونٹ میں ہوتا ہے اور نحر کے معنیٰ ہیں: اونٹ کے سینے کے اوپر اور ذقن کے نیچے برچھا مارنا جبکہ دوسرے تمام جانور ذبح کیے جاتے ہیں، یعنی ان کے حلق پر چھری چلائی جاتی ہے، بہرحال مذبوح جانور کو نحر کرنا اور جس جانور کو نحر کیا جاتا ہواسے ذبح کرنا دونوں طرح جائز ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ذبح کرتے وقت آناًفاناً شہ رگ کاٹ دی جاتی ہے پھر جانور کی گردن کو پیچھے کی طرف موڑ کر جھٹکے سے اس کا مٹکا دیا جاتا ہے، اس کے بعد چھری کو نوک سے بقایا رگیں کاٹ دی جاتی ہیں اور ساتھ ہی سامنے نظر والے حرام مغز کی رگ کو بھی مکمل طور پر کاٹ دیاجاتا ہے ایسا کرنا ذبح کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ حرام مغز کے زریعے سے دماغ اور جسم کا باہمی رابطہ قائم رہتا ہے اور اسکے زریعے سے خون کی نجاست سے جسم پاک ہوتا ہے۔ حرام مغز کاٹ دینے سے خون زیادہ تر جسم کے اندر ہی رہ جاتا ہے جو انسان کی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے بلکہ اگر دم منسوخ جانور کے اندر ہی رہ جائے تو ایسا جانور نیم حرام ہونے کے زمرے میں آتا ہے۔ واضح رہے کہ ذبح کے لیے قرآن میں لفظ ”ذکیتم“ آیا ہے اس سے مرا جانور کو اس طرح ذبح کرنا ہے کہ اس کی جان جلد از جلد اور بہ سہولت نکل جائے اور اس کا تعلق چھری کی تیزی اور استعمال میں چابک دستی سے ہے، گردن موڑ کر اس کا منکا توڑنا اسے تکلیف در تکلیف میں مبتلا کرنا ہے، جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کا تمام خون نکل جائے اور ٹھنڈ ہوکر بے حس وحرکت ہوجانے تک اس کی کھال اتارنے میں جلدی نہ کی جائے
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میری بیوی فاطمہ بنت منذر نے خبر دی ان سے حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma bint Abu Bakr (RA) : We slaughtered a horse (by Nahr) during the lifetime of the Prophet (ﷺ) and ate it.