باب: ہر پھاڑ کر کھانے والے درندے ( وپرندے ) کے گوشت کھانے کے بارے میں
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The meat of beasts of prey having fangs)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5530.
سیدنا ثعلبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ یونس معمر ابن عینیہ اور ماجشون نے زہری سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی والے درندے اور ہر چنگال دار پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، الصید و الذبائح، حدیث: 4994 (1934)) وہ درندے جو نیش دار ہوں، یعنی کچلیوں سے شکار کرنے والے ہوں، جیسے: شیر، بھیڑیا اور چیتا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح ہر وہ پرندہ جو چنگال دار ہو، یعنی اپنے پنجوں سے شکار پکڑے اور چیز پھاڑ کر کھائے، جیسے: شاہین، باز اور گِدھ وغیرہ بھی حرام ہیں لیکن ان سے لگڑ بگڑ کو مستثنیٰ کیا گیا ہے، حالانکہ وہ کچلی والا ہے۔ دراصل ہر درندے کی حرمت کی دو وجہیں ہیں: ایک کچلیوں کا ہونا دوسرا اس کا حملہ آور ہونا۔ درندگی کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ دونوں وصف رکھنے والے درندے کھانے سے درندگی والی قوت آ جاتی ہے۔ لگڑ بگڑ کچلی والا تو ہے لیکن اس میں درندگی کا وصف نہیں ہے، اس لیے اسے حلال قرار دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شکار قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3801) (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سنن ابی داود (اردو) حدیث نمبر: 3801 کے فوائد و مسائل، طبع دارالسلام)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5318
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5530
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5530
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5530
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
ذی ناب سے مراد وہ کچلی والا درندہ ہے جو اپنے دانتوں سے شکار زخمی کر کے اسے پھاڑ دیتا ہے، اسی طرح ذی مخلب، یعنی چنگال والا پرندہ بھی اسی حکم میں شامل ہے۔
سیدنا ثعلبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ یونس معمر ابن عینیہ اور ماجشون نے زہری سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی والے درندے اور ہر چنگال دار پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، الصید و الذبائح، حدیث: 4994 (1934)) وہ درندے جو نیش دار ہوں، یعنی کچلیوں سے شکار کرنے والے ہوں، جیسے: شیر، بھیڑیا اور چیتا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح ہر وہ پرندہ جو چنگال دار ہو، یعنی اپنے پنجوں سے شکار پکڑے اور چیز پھاڑ کر کھائے، جیسے: شاہین، باز اور گِدھ وغیرہ بھی حرام ہیں لیکن ان سے لگڑ بگڑ کو مستثنیٰ کیا گیا ہے، حالانکہ وہ کچلی والا ہے۔ دراصل ہر درندے کی حرمت کی دو وجہیں ہیں: ایک کچلیوں کا ہونا دوسرا اس کا حملہ آور ہونا۔ درندگی کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ دونوں وصف رکھنے والے درندے کھانے سے درندگی والی قوت آ جاتی ہے۔ لگڑ بگڑ کچلی والا تو ہے لیکن اس میں درندگی کا وصف نہیں ہے، اس لیے اسے حلال قرار دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شکار قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3801) (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سنن ابی داود (اردو) حدیث نمبر: 3801 کے فوائد و مسائل، طبع دارالسلام)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابو ادریس خولانی نے اور وہ حضرت ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر پھاڑ کھانے والے درندوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ اس روایت کی متابعت یونس، معمر، ابن عیینہ اور ماجشون نے زہری کی سند سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ذي ناب سے مراد ایسے دانت ہیں جن سے درندہ جانور یا پرندہ اپنے شکار کو زخم کر کے پھاڑ دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Tha'laba (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) forbade the eating of the meat of beasts having fangs.