باب: جس نے کہا کہ قربانی صرف دسویں تاریخ تک ہی درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: Sacrifices on the day of Nahr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5550.
سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت ہر آ گیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جب اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں: تین مسلسل، یعنی ذی العقد ذولحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب مضر جو جماری الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ ”( پھر آپ نے فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ہم سمجھے کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: ”کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟ ہم نے کہا: ذوالحجہ ہی ہے، پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کی: ”اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ بالآخر آپ نے فرمایا: کیا یہ بلدہ یعنی مکہ مکرمہ نہیں؟“ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، پھر آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے پھر آپ خاموش ہو گئے ہم نے سوچا شاید آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے عرض کی: کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون تمہارے مال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد بن سیرین نے کہا کہ میرا خیال ہے (ابن ابی بکرہ نے) یہ بھی کہا۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں ہے تم عنقریب اپنے رب سے ملاقات کرو گے تو وہ تمہارے اعمال کے متعلق تم سے سوال کرے گا۔ خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے خبردار! میرا یہ پیغام حاجر شخص غائب کو پہنچا دے۔ ممکن ہے جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے وہ سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہوں۔ ۔ ۔ محمد بن سیرین جب یہ حدیث بیان کرتے تو کہتے: نبی ﷺ نے سچ فرمایا: ۔ ۔ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! کیا میں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے؟ خبردار! کیا میں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے؟
تشریح:
(1) عربوں نے تاریخ کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک مہینے کو پیچھے کر کے دوسرا مہینہ آگے کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کبھی کبھی سال تیرہ ماہ کا بھی ہو جاتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا عربوں نے ماہ ذوالحجہ کو ایک مہینہ پیچھے کر دیا تھا، یعنی وہ حج ذوالقعدہ کے مہینے میں ہوا تھا۔ اسے وہ نسیئ کہتے تھے جس کی قرآن کریم نے تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حج کیا وہ ذوالحجہ کے مہینے ہی میں تھا۔ اسی بات کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آغاز میں کی ہے۔ (2) جو حضرات دسویں ذوالحجہ کو قربانی کا دن قرار دیتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ حدیث میں یوم کی اضافت النحر کی طرف ہے جو اختصاص کے لیے ہے، یعنی نحر اسی دن میں منحصر ہے لیکن دوسری نصوص کو نظر انداز کر کے صرف عقلی بنیاد پر مسئلہ بنا لینا دانشمندی نہیں جبکہ قرآن کریم میں ہے: ’’اور قربانی کے ایام معلومات میں مویشی قسم کے چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں دیے ہیں۔‘‘(الحج: 28) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے لیے متعدد ایام ہیں، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام ایام تشریق قربانی کے دن ہیں۔‘‘(مسند أحمد: 82/4) ایام تشریق یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں، یعنی 10 ذوالحجہ سے لے کر 13 ذوالحجہ کی شام تک قربانی کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5338
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5550
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5550
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5550
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حمید بن عبدالرحمٰن، محمد بن سیرین اور داود ظاہری کا موقف ہے کہ قربانی صرف دسویں تاریخ کو کرنی چاہیے جبکہ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ دسویں کے علاوہ تین دن قربانی کی جا سکتی ہے۔ (فتح الباری: 10/11)
سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت ہر آ گیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جب اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں: تین مسلسل، یعنی ذی العقد ذولحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب مضر جو جماری الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ ”( پھر آپ نے فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ہم سمجھے کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: ”کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟ ہم نے کہا: ذوالحجہ ہی ہے، پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کی: ”اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ بالآخر آپ نے فرمایا: کیا یہ بلدہ یعنی مکہ مکرمہ نہیں؟“ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، پھر آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے پھر آپ خاموش ہو گئے ہم نے سوچا شاید آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے عرض کی: کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون تمہارے مال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد بن سیرین نے کہا کہ میرا خیال ہے (ابن ابی بکرہ نے) یہ بھی کہا۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں ہے تم عنقریب اپنے رب سے ملاقات کرو گے تو وہ تمہارے اعمال کے متعلق تم سے سوال کرے گا۔ خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے خبردار! میرا یہ پیغام حاجر شخص غائب کو پہنچا دے۔ ممکن ہے جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے وہ سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہوں۔ ۔ ۔ محمد بن سیرین جب یہ حدیث بیان کرتے تو کہتے: نبی ﷺ نے سچ فرمایا: ۔ ۔ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! کیا میں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے؟ خبردار! کیا میں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے؟
حدیث حاشیہ:
(1) عربوں نے تاریخ کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک مہینے کو پیچھے کر کے دوسرا مہینہ آگے کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کبھی کبھی سال تیرہ ماہ کا بھی ہو جاتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا عربوں نے ماہ ذوالحجہ کو ایک مہینہ پیچھے کر دیا تھا، یعنی وہ حج ذوالقعدہ کے مہینے میں ہوا تھا۔ اسے وہ نسیئ کہتے تھے جس کی قرآن کریم نے تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حج کیا وہ ذوالحجہ کے مہینے ہی میں تھا۔ اسی بات کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آغاز میں کی ہے۔ (2) جو حضرات دسویں ذوالحجہ کو قربانی کا دن قرار دیتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ حدیث میں یوم کی اضافت النحر کی طرف ہے جو اختصاص کے لیے ہے، یعنی نحر اسی دن میں منحصر ہے لیکن دوسری نصوص کو نظر انداز کر کے صرف عقلی بنیاد پر مسئلہ بنا لینا دانشمندی نہیں جبکہ قرآن کریم میں ہے: ’’اور قربانی کے ایام معلومات میں مویشی قسم کے چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں دیے ہیں۔‘‘(الحج: 28) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے لیے متعدد ایام ہیں، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام ایام تشریق قربانی کے دن ہیں۔‘‘(مسند أحمد: 82/4) ایام تشریق یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں، یعنی 10 ذوالحجہ سے لے کر 13 ذوالحجہ کی شام تک قربانی کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ابن ابی بکر ہ نے اور ان سے ابو بکر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا! زمانہ پھر کر اسی حالت پر آ گیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تھے۔ سال بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں، تین پے درپے ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے (پھر آ پ نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے، ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا کہ شاید آنحضرت ﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا ذی الحجہ ہی ہے۔ پھر فرمایا یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ بلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا یہ دن کون سا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا بہتر علم ہے۔ آنحضرت ﷺ خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن (یوم النحر) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں! پھر آپ نے فرمایا پس تمہارا خون، تمہارے اموال۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ (ابن ابی بکرہ نے) یہ بھی کہا کہ ”اور تمہاری عزت تم پر (ایک کی دوسرے پر) اس طرح با حرمت ہیں جس طرح اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور اس مہینہ میں ہے اور عنقریب اپنے رب سے ملو گے اس وقت وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا آگاہ ہو جاؤ میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ ہاں جو یہاں موجود ہیں وہ (میرا یہ پیغام) غیر موجود لوگوں کو پہنچا دیں۔ ممکن ہے کہ بعض وہ جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے بعض ان سے زیادہ اسے محفوظ کرنے والے ہوں جو اسے سن رہے ہیں۔ اس پر محمد بن سے مرتین کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے سچ فرمایا پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا آگاہ ہو جاؤ کیا میں نے (اس کا پیغام تم کو) پہنچا دیا ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کیا میں نے پہنچا دیا ہے؟
حدیث حاشیہ:
یوم النحر صرف دسویں ذی الحجہ ہی کو کہا جاتا ہے اس کے بعد قربانی 11-12-13 تک جائز ہے۔ یہ ایام تشریق کہلاتے ہیں۔ عربوں نے تاریخ کو سب الٹ پلٹ کر دیا تھا ایک مہینہ کو پیچھے ڈال کر دوسرا مہینہ آگے کر دیتے کبھی سال تیرہ ماہ کا کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حجۃ الوداع میں بتلا دیا کہ یہ مہینہ حقیقت میں ذی الحجہ کا ہے۔ اب سے حساب درست رکھو مضر ایک عربی قبیلہ تھا جو ماہ رجب کا بہت ادب کرتا تھا اسی لیے رجب اس کی طرف منسوب ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Time has come back to its original state which it had on the day Allah created the Heavens and the Earth. The year is twelve months, four of which are sacred, three of them are in succession, namely Dhul-Qa'da, Dhul Hijja and Muharram, (the fourth being) Rajab Mudar which is between Juma'da (ath-thamj and Sha'ban. The Prophet (ﷺ) then asked, "Which month is this?" We said, "Allah and his Apostle (ﷺ) know better." He kept silent so long that we thought that he would call it by a name other than its real name. He said, "Isn't it the month of Dhul-Hijja?" We said, "Yes." He said, "Which town is this?" We said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He kept silent so long that we thought that he would call it t,y a name other than its real name. He said, "isn't it the town (of Makkah)?" We replied, "Yes." He said, "What day is today?" We replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He kept silent so long that we thought that he would call it by a name other than its real name. He said, "Isn't it the day of Nahr?" We replied, "Yes." He then said, "Your blood, properties and honor are as sacred to one another as this day of yours in this town of yours in this month of yours. You will meet your Lord, and He will ask you about your deeds. Beware! Do not go astray after me by cutting the necks of each other. It is incumbent upon those who are present to convey this message to those who are absent, for some of those to whom it is conveyed may comprehend it better than some of those who have heard it directly." (Muhammad, the sub-narrator, on mentioning this used to say: The Prophet (ﷺ) then said, "No doubt! Haven't I delivered (Allah's) Message (to you)? Haven't I delivered Allah's message (to you)?"