باب: شراب کی حرمت جب نازل ہوئی تو وہ کچی اور پکی کھجوروں سے تیار کی جاتی تھی
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: Prohibition of alcoholic drinks prepared from unripe and ripe dates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5584.
سیدنا انس بن مالک ؓ ہی سے ایک دوسری روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب شراب حرام کی گئی تو وہ کچی اور پکی کھجوروں سے تیار کی جاتی تھی۔
تشریح:
(1) زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ خام (کچی) اور پختہ کھجوروں سے تیار کی ہوئی شراب بہت پسند کرتے تھے۔ چونکہ وہاں کھجوروں کی کثرت تھی، اس لیے وہ انہی سے کشید کرتے تھے اور ان سے تیار شدہ شراب بھی بڑی عمدہ ہوتی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا، پھر تعمیل ارشاد کے وقت یہ منظر تھا کہ مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں میں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اٹھو اور ان مٹکوں کو توڑ دو۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میرے پاس ہاون دستہ پڑا تھا، میں نے وہی گھڑوں کی نچلی جانب مارا اور شراب کو بہا دیا۔ (صحیح البخاري، أخبار الآحاد، حدیث: 7253) (2) بہرحال حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو شراب کے متعلق صحیح روایات ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت شراب کچی پکی کھجوروں سے تیار کی جاتی تھی۔ اس سے اہل کوفہ کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ خمر صرف انگور کی شراب کو کہا جاتا ہے اور جو اس کے علاوہ دوسری چیزوں سے تیار کی جائے وہ خمر نہیں ہے۔ اہل کوفہ کا یہ موقف لغت عرب، سنت صحیحہ اور اقوال صحابہ کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5372
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5584
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5584
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5584
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
سیدنا انس بن مالک ؓ ہی سے ایک دوسری روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب شراب حرام کی گئی تو وہ کچی اور پکی کھجوروں سے تیار کی جاتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ خام (کچی) اور پختہ کھجوروں سے تیار کی ہوئی شراب بہت پسند کرتے تھے۔ چونکہ وہاں کھجوروں کی کثرت تھی، اس لیے وہ انہی سے کشید کرتے تھے اور ان سے تیار شدہ شراب بھی بڑی عمدہ ہوتی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا، پھر تعمیل ارشاد کے وقت یہ منظر تھا کہ مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں میں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اٹھو اور ان مٹکوں کو توڑ دو۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میرے پاس ہاون دستہ پڑا تھا، میں نے وہی گھڑوں کی نچلی جانب مارا اور شراب کو بہا دیا۔ (صحیح البخاري، أخبار الآحاد، حدیث: 7253) (2) بہرحال حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو شراب کے متعلق صحیح روایات ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت شراب کچی پکی کھجوروں سے تیار کی جاتی تھی۔ اس سے اہل کوفہ کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ خمر صرف انگور کی شراب کو کہا جاتا ہے اور جو اس کے علاوہ دوسری چیزوں سے تیار کی جائے وہ خمر نہیں ہے۔ اہل کوفہ کا یہ موقف لغت عرب، سنت صحیحہ اور اقوال صحابہ کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یوسف ابو معشر براء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے بکر بن عبداللہ نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ جب شراب حرام کی گئی تو وہ کچی اور پختہ کھجوروں سے تیار کی جاتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ عرب زمانہ جاہلیت میں خام اور پختہ کھجوروں کی شراب کو بہت زیادہ مرغوب رکھتے تھے اور یہ کھجور بکثرت پائی جاتی تھی جس کی شراب بڑی عمدہ ہوتی تھی جس کو اللہ نے حرام کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Alcoholic drinks were prohibited. At that time these drinks used to be prepared from unripe and ripe dates.