Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Fever is from the heat of Hell)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5723.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بخار جہنم کی بھاپ سے ہے لہذا تم اس (بھاپ) کو پانی سے بجھاؤ۔“ نافع سے بیان کرتے ہیں: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو جب بخار آتا تو یوں دعا کرتے: (اے اللہ!) ہم سے اس عذاب کو دور کر دے۔
تشریح:
اس حدیث میں پانی کے استعمال کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔ اس کے استعمال کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، مثلاً: پانی نوش کرنا یا جسم پر پانی کی پٹیاں رکھنا، برف لگانا یا غسل کرنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات طیبہ کے آخری ایام میں غسل فرمایا تھا تاکہ حرارت کچھ کم ہو جائے تو جماعت سے نماز ادا کر سکیں۔ گرم علاقوں میں بخار عام طور پر گرمی کی شدت سے ہوتا ہے، لہذا اس کا علاج پانی سے مناسب ہے۔ ایک روایت میں مائے زمزم کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3261) لیکن یہ قید اتفاقی ہے کیونکہ مکہ مکرمہ میں مائے زمزم بکثرت دستیاب تھا اور مذکورہ واقعہ بھی مکہ مکرمہ کا ہے۔ ہر قسم کا پانی بخار کے لیے مفید ہے۔ ڈاکٹر حضرات بھی اس سلسلے میں برف کی پٹیوں کا مشورہ دیتے ہیں، بہرحال ایسا کرنے سے بخار کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5505
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5723
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5723
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5723
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
بخار سے جہنم کی یاد آتی ہے جس طرح دنیا کی خوشیاں اور اس کی راحتیں جنت سے ایک طرح کا تعلق رکھتی ہیں اسی طرح بخار وغیرہ کا جہنم سے ایک تعلق ہے۔ ممکن ہے کہ بخار کا تعلق جہنم کی آگ سے حقیقی ہو جس کی حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی۔ واللہ اعلم
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بخار جہنم کی بھاپ سے ہے لہذا تم اس (بھاپ) کو پانی سے بجھاؤ۔“ نافع سے بیان کرتے ہیں: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو جب بخار آتا تو یوں دعا کرتے: (اے اللہ!) ہم سے اس عذاب کو دور کر دے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں پانی کے استعمال کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔ اس کے استعمال کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، مثلاً: پانی نوش کرنا یا جسم پر پانی کی پٹیاں رکھنا، برف لگانا یا غسل کرنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات طیبہ کے آخری ایام میں غسل فرمایا تھا تاکہ حرارت کچھ کم ہو جائے تو جماعت سے نماز ادا کر سکیں۔ گرم علاقوں میں بخار عام طور پر گرمی کی شدت سے ہوتا ہے، لہذا اس کا علاج پانی سے مناسب ہے۔ ایک روایت میں مائے زمزم کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3261) لیکن یہ قید اتفاقی ہے کیونکہ مکہ مکرمہ میں مائے زمزم بکثرت دستیاب تھا اور مذکورہ واقعہ بھی مکہ مکرمہ کا ہے۔ ہر قسم کا پانی بخار کے لیے مفید ہے۔ ڈاکٹر حضرات بھی اس سلسلے میں برف کی پٹیوں کا مشورہ دیتے ہیں، بہرحال ایسا کرنے سے بخار کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت ابن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بخار جہنم کی بھاپ میں سے ہے پس اس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔ نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ (کو جب بخار آتا تو) یوں دعا کرتے کہ ”اللہ! ہم سے اس عذاب کو دور کر دے۔“
حدیث حاشیہ:
حرارت کی بنا پر دوزخ کی بھاپ سے تشبیہ دی گئی ہے وصدق رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم بخار پر صبر کرنا ہی ثواب ہے اور تندرستی کی دعا اتنا ہی درست ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت دعا فرماتے تھے۔ ''اَللھُم إِني أَسئلُكَ العفوَ و العافیةَ'' اے اللہ! میں تجھ سے عافیت کے لیے سوال کرتا ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nazi': Abdullah bin 'Umar said, "The Prophet (ﷺ) said, 'Fever is from the heat of Hell, so put it out (cool it) with water.' " Nafi' added: 'Abdullah used to say, "O Allah! Relieve us from the punishment," (when he suffered from fever).