باب: رسول کریم ﷺ نے بیماری سے شفا کے لیے کیا دعا پڑھی ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: The Ruqya of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5744.
سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھ کر دم کرتے تھے: ”اے لوگوں کے رب! تکلیف دور کردے۔ تیرے ہاتھ ہی میں شفا ہے تیرے سوا کوئی بھی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔“
تشریح:
(1) ان احادیث میں مسنون دم کی وضاحت ہے۔ اس سے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مصیبتیں، دکھ درد اور پریشانیاں دور نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا اسے دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے۔ وہ بڑی مغفرت والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘(یونس: 10/107) (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی پہلی حدیث میں ''يُعَوِذُ" کے الفاظ تھے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث لا کر وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے معنی دم کرنا ہیں تاکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی طرح یہ ثابت ہو کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم ہے۔ (فتح الباری: 10/256)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5526
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5744
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5744
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5744
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
"رقية النبي" کے دو مفہوم ہیں: پہلا یہ کہ خود آپ کا دم پڑھنا جیسا کہ آئندہ احادیث میں بیان ہو گا۔ اس صورت میں رقیہ کی اضافت اپنے فاعل کی طرف ہو گی۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر دم کرنا جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے آپ پر دم کیا تھا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5700 (2186)) اس صورت میں رقیہ کی اضافت اپنے مفعول کی طرف ہو گی۔ (فتح الباری: 10/255)
سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھ کر دم کرتے تھے: ”اے لوگوں کے رب! تکلیف دور کردے۔ تیرے ہاتھ ہی میں شفا ہے تیرے سوا کوئی بھی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث میں مسنون دم کی وضاحت ہے۔ اس سے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مصیبتیں، دکھ درد اور پریشانیاں دور نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا اسے دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے۔ وہ بڑی مغفرت والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘(یونس: 10/107) (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی پہلی حدیث میں ''يُعَوِذُ" کے الفاظ تھے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث لا کر وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے معنی دم کرنا ہیں تاکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی طرح یہ ثابت ہو کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دم ہے۔ (فتح الباری: 10/256)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے احمد بن ابی رجاءنے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں حضرت عائشہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ دم کیا کرتے تھے اوریہ دعا پڑھتے تھے ”تکلیف کو دور کردے اورلوگوں کے پالنہار! تیرے ہی ہاتھ میں شفا ہے ، تیرے سوا تکلیف کو دور کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ فرماکر آپ نے شرک کی جڑ بنیاد اکھیڑ دی۔ جب اس کے سوا کوئی درد دکھ تکلیف دفع نہیں کرسکتا تو اس کے سوا کسی بت دیوتا یا پیر کو پکارنا محض نادانی وحماقت ہے۔ اس سے قبوریوں کو سبق لینا چاہیے جو دن رات اہل قبور سے استدعا کرتے رہتے ہیں اور مزارات بزرگوں کو قبلہ حاجات سمجھے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ خود قرآن پاک کا بیان ہے ﴿ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولواجتمعوا لہ﴾(الحج: 73) حاجات کے لیے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو یہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اس آیت میں سارے دیوی دیوتا پیروں ولیوں کے متعلق کہا گیا ہے جن کو لوگ پوجتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) used to treat with a Ruqya saying, "O the Lord of the people! Remove the trouble The cure is in Your Hands, and there is none except You who can remove it (the disease) . "