Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: The milk of she-asses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5781.
ابن شہاب زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے ابو ادریس خولانی سے پوچھا : کیا ہم گدھی کے دودھ سے وضو کرسکتے ہیں یا درندے جانور کا پتا استعمال کرسکتے ہیں یا اونٹ کا پیشاب پی سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مسلمان اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ گدھی کے دودھ کے متعلق ہمیں یہ حدیث پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا البتہ اس کے دودھ کے متعلق ہمیں (رسول اللہ ﷺ کا) کوئی حکم یا ممانعت معلوم نہیں۔ ہاں درندوں کے پتے کے متعلق مجھے ابو ادریس خولانی نے بتایا اور انہیں ابو ثعلبہ خشنی ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) درندوں کا پتہ حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کو کھانے سے منع فرمایا ہے، حدیث کے یہ الفاظ درندے کے تمام اجزاء کے بارے میں ہیں کہ وہ حرام ہیں۔ ان میں پتا بھی شامل ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ گدھی کا دودھ بھی حرام ہے کیونکہ گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے اور دودھ بھی گوشت سے نکلتا ہے جیسا کہ ابو ضمرہ کی روایت میں ہے کہ دودھ گوشت سے نکلتا ہے۔ جمہور کے نزدیک گدھی کا دودھ حرام ہے۔ (فتح الباري: 10/307) (2) گوشت پر قیاس کرتے ہوئے گدھی کے دودھ کو حرام کہنا محل نظر ہے کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے جیسا کہ آدمی کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن عورت کا دودھ پینا جائز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کا رجحان گدھی کے دودھ کے متعلق یہ ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے متعلق کوئی حکم یا ممانعت نہیں پہنچی، لہذا جس چیز کے متعلق شارع علیہ السلام نے سکوت اختیار کیا وہ صاف ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت ہے، اس بنا پر متعدد تابعین نے گدھی کے دودھ کو حلال کہا ہے۔ واضح رہے کہ مالیخولیا کے مریض کے سر پر اگر گدھی کے دودھ سے مالش کی جائے تو صحت یاب ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5562.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5781
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5781
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5781
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
ابن شہاب زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے ابو ادریس خولانی سے پوچھا : کیا ہم گدھی کے دودھ سے وضو کرسکتے ہیں یا درندے جانور کا پتا استعمال کرسکتے ہیں یا اونٹ کا پیشاب پی سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مسلمان اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ گدھی کے دودھ کے متعلق ہمیں یہ حدیث پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا البتہ اس کے دودھ کے متعلق ہمیں (رسول اللہ ﷺ کا) کوئی حکم یا ممانعت معلوم نہیں۔ ہاں درندوں کے پتے کے متعلق مجھے ابو ادریس خولانی نے بتایا اور انہیں ابو ثعلبہ خشنی ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) درندوں کا پتہ حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کو کھانے سے منع فرمایا ہے، حدیث کے یہ الفاظ درندے کے تمام اجزاء کے بارے میں ہیں کہ وہ حرام ہیں۔ ان میں پتا بھی شامل ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ گدھی کا دودھ بھی حرام ہے کیونکہ گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے اور دودھ بھی گوشت سے نکلتا ہے جیسا کہ ابو ضمرہ کی روایت میں ہے کہ دودھ گوشت سے نکلتا ہے۔ جمہور کے نزدیک گدھی کا دودھ حرام ہے۔ (فتح الباري: 10/307) (2) گوشت پر قیاس کرتے ہوئے گدھی کے دودھ کو حرام کہنا محل نظر ہے کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے جیسا کہ آدمی کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن عورت کا دودھ پینا جائز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کا رجحان گدھی کے دودھ کے متعلق یہ ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے متعلق کوئی حکم یا ممانعت نہیں پہنچی، لہذا جس چیز کے متعلق شارع علیہ السلام نے سکوت اختیار کیا وہ صاف ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت ہے، اس بنا پر متعدد تابعین نے گدھی کے دودھ کو حلال کہا ہے۔ واضح رہے کہ مالیخولیا کے مریض کے سر پر اگر گدھی کے دودھ سے مالش کی جائے تو صحت یاب ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور لیث نے زیادہ کیا ہے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے، کہ میں نے ابو ادریس سے پوچھا کیا ہم (دوا کے طورپر) گدھی کے دودھ سے وضو کر سکتے ہیں یا اسے پی سکتے ہیں یا درندہ جانوروں کے پتے استعمال کر سکتے ہیں یا اونٹ کا پیشاب پی سکتے ہیں۔ ابو ادریس نے کہا کہ مسلمان اونٹ کے پیشاب کو دوا کے طور پر استعمال کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ البتہ گدھی کے دودھ کے بارے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے گوشت سے منع فرمایا تھا۔ اس کے دودھ کے متعلق ہمیں کوئی حکم یا ممانعت آ نحضرت ﷺ سے معلوم نہیں ہے۔ البتہ درندوں کے پتے کے متعلق جو ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے ابو ادریس خولانی نے خبر دی اور انہیں ابو ثعلبہ خشنی ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر دانت والے شکاری درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
پتہ بھی اسی میں داخل ہے وہ بھی حرام ہوگا۔ بس جس چیز سے شارع نے سکوت کیا وہ معاف ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے۔ اسی بنا پر عطاء، طاؤس اور زہری اور کئی تابعین نے کہا کہ گدھی کا دودھ حلال ہے۔ جو لوگ حرام کہتے ہیں وہ یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ دودھ گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور جب گوشت کھانا حرام ہو تو دودھ بھی حرام ہوگا۔ میں (وحیدالزماں) کہتا ہوں کہ یہ قیاس فاسد ہے آدمی کا گوشت کھانا حرام ہے مگر اس کا دودھ حلال ہے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(Az-Zuhri said: I did not hear this narration except when I went to Sham.) Al-Laith said: Narrated Yunus: I asked Ibn Shihab (RA), "May we perform the ablution with the milk of she-asses or drink it, or drink the bile of wild animals or urine of camels?" He replied, "The Muslims used to treat themselves with that and did not see any harm in it. As for the milk of she-asses, we have learnt that Allah's Apostle (ﷺ) forbade the eating of their meat, but we have not received any information whether drinking of their milk is allowed or forbidden." As for the bile of wild animals, Ibn Shihab (RA) said, "Abu Idris Al-Khaulani told me that Allah's Apostle (ﷺ) forbade the eating of the flesh of every wild beast having fangs . "