باب: اللہ پاک کا سورۃ الاعراف میں فرمان ”اے رسول! کہہ دو کہ کس نے وہ زیب و زینت کی چیزیں حرام کیں ہیں جو اس نے بندوں کے لیے (زمین سے) پیدا کی ہیں (یعنی عمدہ عمدہ لباس)“
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: "Say: Who has forbidden the adornment with clothes given by Allah which He has produced for His slaves?")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا ”کھاؤ اور پیو اور پہنو اور خیرات کرو لیکن اسراف نہ کرو اور نہ تکبر کرو۔“ اور ابن عباس ؓ نے کہا جو تیرا جی چاہے (بشرطیکہ حلال ہو) کھاؤ اور جو تیرا جی چاہے (مباح کپڑوں میں سے) پہن مگر دو باتوں سے ضرور بچو اسراف اور تکبر سے۔تشریح:کیونکہ یہی دو چیزیں انسان کو بتاہ و برباد کر دیتی ہیں۔مال میں فضول خرچی نہ کرو یعنی اپنے مال کو نا جائز کاموں میں نہ صرف کرو یہ اسراف ہر اعتبار نازیبا ہے لہذا ہر انسان پر لازم ہے کہ اعتدال اور میانہ روی سے کام لے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا الاقتصاد جزء من النبوۃ میانہ روی نبوت کا ایک حصہ ہے جب انسان لباس میں ملبوس ہو کر اکڑتا ہوا چلے تو یہ تکبیر میں شامل ہے کیونکہ ایک شخص چار جوڑے میں تکبر کرتا ہوا چلا جا رہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جا رہا ہے۔
5783.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نطر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر کرتے ہوئے اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔“
تشریح:
(1) کپڑا گھسیٹ کر چلنا انتہائی معیوب ہے۔ اس میں چادر، قمیص، شلوار، جبہ، کوٹ اور پگڑی وغیرہ شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’حد سے زیادہ کپڑا لٹکانا تہ بند، قمیص اور پگڑی تمام میں ممنوع ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4094) یہ اسراف ہے اور تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا: ’’ٹخنوں سے نیچے چادر لٹکانے سے بچنا کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4084) البتہ عورتوں کو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی اجازت ہے۔ (2) گویا اس انداز میں نسوانیت کا پہلو بھی ہے جو مردوں کو زیب نہیں دیتا۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کریں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند اور شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ ہو گی۔ بہرحال مسلمانوں کو اپنے لباس میں اسراف اور تکبر سے بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5564
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5783
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5783
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5783
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
عرب کے قبائل حج کے دنوں میں گوشت نہیں کھاتے تھے اور بیت اللہ کا طواف بھی کپڑوں کے بغیر کرتے تھے تو مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔ (عمدۃ القاری: 3/15) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کے شان نزول کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش بیت اللہ کا طواف ننگے بدن، تالیاں پیٹتے اور سیٹیاں بجاتے ہوئے کرتے تھے، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل کی ہے۔ (فتح الباری: 10/311) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد گرامی متصل سند سے بھی مروی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، اللباس، حدیث: 3605) مسلمانوں کا لباس دو بنیادی ضروریات کے لیے ہوتا ہے: سترپوشی اور اظہار زینت، لہذا ایسا لباس جس سے ستر پوشی کی ضرورت پوری نہ ہو یا اظہار زینت کے بجائے فخر و مباہات کے لیے ہو اسے زیب تن کرنا غلط اور ناجائز ہے۔ اس کے علاوہ فضول خرچی اور تکبر دونوں چیزیں انسان کے لیے تباہ کن ہیں، لہذا اعتدال اور میانہ روی کا مظاہرہ کیا جائے۔
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا ”کھاؤ اور پیو اور پہنو اور خیرات کرو لیکن اسراف نہ کرو اور نہ تکبر کرو۔“ اور ابن عباس ؓ نے کہا جو تیرا جی چاہے (بشرطیکہ حلال ہو) کھاؤ اور جو تیرا جی چاہے (مباح کپڑوں میں سے) پہن مگر دو باتوں سے ضرور بچو اسراف اور تکبر سے۔تشریح:کیونکہ یہی دو چیزیں انسان کو بتاہ و برباد کر دیتی ہیں۔مال میں فضول خرچی نہ کرو یعنی اپنے مال کو نا جائز کاموں میں نہ صرف کرو یہ اسراف ہر اعتبار نازیبا ہے لہذا ہر انسان پر لازم ہے کہ اعتدال اور میانہ روی سے کام لے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا الاقتصاد جزء من النبوۃ میانہ روی نبوت کا ایک حصہ ہے جب انسان لباس میں ملبوس ہو کر اکڑتا ہوا چلے تو یہ تکبیر میں شامل ہے کیونکہ ایک شخص چار جوڑے میں تکبر کرتا ہوا چلا جا رہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جا رہا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نطر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر کرتے ہوئے اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کپڑا گھسیٹ کر چلنا انتہائی معیوب ہے۔ اس میں چادر، قمیص، شلوار، جبہ، کوٹ اور پگڑی وغیرہ شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’حد سے زیادہ کپڑا لٹکانا تہ بند، قمیص اور پگڑی تمام میں ممنوع ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4094) یہ اسراف ہے اور تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا: ’’ٹخنوں سے نیچے چادر لٹکانے سے بچنا کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4084) البتہ عورتوں کو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی اجازت ہے۔ (2) گویا اس انداز میں نسوانیت کا پہلو بھی ہے جو مردوں کو زیب نہیں دیتا۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کریں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند اور شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ ہو گی۔ بہرحال مسلمانوں کو اپنے لباس میں اسراف اور تکبر سے بچنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: ”کھاؤ پیو پہنو اور صدقہ کرو لیکن اسراف اورفخر و مباہات کا اظہار نہ ہو۔“ حضرت ابن عباسؓ نے کہا: جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو زیب تن کرو مگر اسراف اور تکبر دونوں سے گریز کرو
فائدہ: رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ بالا ارشاد گرامی متصل سند سے بھی مروی ہے، مسلمانوں کا لباس دو بنیادی ضروریات کے لیے ہوتا ہے۔ ستر پوشی اور اظہار زینت لہذا ایسا لباس جس سے ستر پوشی کی ضروریات پوری نہ ہو یا اظہار زینت کے بجائے فخر ومباہات کے لیے ہوا سے زیب تن کرنا جائز ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے، انہوں نے نافع اور عبداللہ بن دینار اور زید بن اسلم سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں کرے گا جو اپنا کپڑا تکبر وغرور کے سبب سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
لباس کا اسراف یہ ہے کہ بے فائدہ کپڑا خراب کرے ایک ایک تھان کے عمامے باندھے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کپڑا لٹکانے میں تکبر اور غرور کو بڑا دخل ہے یہ بہت ہی بری عادت ہے تکبر اور غرور کے ساتھ کتنی ہی نیکی ہو لیکن آدمی نجات نہیں پا سکے گا اور عاجزی اور فروتنی کے ساتھ کتنے بھی گناہ ہوں لیکن مغفرت کی امید ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Allah will not look at the person who drags his garment (behind him) out of conceit.''