باب: جو کوئی تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹتا ہوا چلے اس کی سزا کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Whoever drags his garment out of pride and arrogance)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5791.
حضرت شعبہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں محارب بن دثار سے ملا جبکہ وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اس جگہ جا رہے تھے جہاں فیصلے کرتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ”جس نے فخر و غرور سے کپڑا گھسیٹا، اللہ تعالٰی اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔“ (شعبہ نے کہا کہ) میں نے محارب سے کہا: کیا ابن عمر ؓ نے) تہبند کا ذکر کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے تہبند یا قمیض کی تخصیص نہیں کی تھی محارب کے ساتھ اس حدیث کو جبلہ بن سحیم، زید بن اسلم اور زید بن عبداللہ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہےلیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے ایسی ہی حدیث ذکر کی ہے نافع کے ساتھ اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ، عمر بن محمد اور قدامہ بن موسیٰ نے بھی سالم سے انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا: ”جو شخص اپنا کپڑا تکبر سے لٹکائے۔ ۔ ۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سفیان بن سہل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اے سفیان! کپڑا جائز حد سے زیادہ نہ لٹکاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس طرح کپڑا لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3574) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک بالشت لٹکا لیا کریں۔‘‘ انہوں نے کہا: اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسی صورت میں ایک ہاتھ لٹکا لیا کریں، اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔‘‘ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1731) (2) اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز کپڑا اپنے پیچھے کھینچتی ہوئی چلتی ہیں، خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔ مغربی تہذیب کو اپناتے ہوئے ہماری عورتوں میں یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ دلہنیں شادی کے موقع پر کئی گز لمبا غرارہ پہنتی ہیں جو پیچھے گھسٹتا رہتا ہے، پھر وہ لہنگا اتنا لمبا ہوتا ہے کہ اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے اور وہ بھی اس کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ نمود و نمائش کی ماری ہوئی یہ عورتیں بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ رحمت سے محروم ہوں گی۔ عورت، مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے رکھنے کی پابند نہیں ہے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں چھپائے رکھے مگر ایک ہاتھ سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے۔ ہمارے رجحان کے مطابق بہتر ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے، ایسا کرنے سے اگر پاؤں ننگے ہوں تو دو بالشت لٹکا لے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5572
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5791
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5791
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5791
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت شعبہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں محارب بن دثار سے ملا جبکہ وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اس جگہ جا رہے تھے جہاں فیصلے کرتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ”جس نے فخر و غرور سے کپڑا گھسیٹا، اللہ تعالٰی اسے قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔“ (شعبہ نے کہا کہ) میں نے محارب سے کہا: کیا ابن عمر ؓ نے) تہبند کا ذکر کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے تہبند یا قمیض کی تخصیص نہیں کی تھی محارب کے ساتھ اس حدیث کو جبلہ بن سحیم، زید بن اسلم اور زید بن عبداللہ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہےلیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے ایسی ہی حدیث ذکر کی ہے نافع کے ساتھ اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ، عمر بن محمد اور قدامہ بن موسیٰ نے بھی سالم سے انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا: ”جو شخص اپنا کپڑا تکبر سے لٹکائے۔ ۔ ۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سفیان بن سہل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اے سفیان! کپڑا جائز حد سے زیادہ نہ لٹکاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس طرح کپڑا لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3574) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک بالشت لٹکا لیا کریں۔‘‘ انہوں نے کہا: اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسی صورت میں ایک ہاتھ لٹکا لیا کریں، اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔‘‘ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1731) (2) اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز کپڑا اپنے پیچھے کھینچتی ہوئی چلتی ہیں، خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔ مغربی تہذیب کو اپناتے ہوئے ہماری عورتوں میں یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ دلہنیں شادی کے موقع پر کئی گز لمبا غرارہ پہنتی ہیں جو پیچھے گھسٹتا رہتا ہے، پھر وہ لہنگا اتنا لمبا ہوتا ہے کہ اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے اور وہ بھی اس کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ نمود و نمائش کی ماری ہوئی یہ عورتیں بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ رحمت سے محروم ہوں گی۔ عورت، مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے رکھنے کی پابند نہیں ہے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں چھپائے رکھے مگر ایک ہاتھ سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے۔ ہمارے رجحان کے مطابق بہتر ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے، ایسا کرنے سے اگر پاؤں ننگے ہوں تو دو بالشت لٹکا لے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محارب بن دثار قاضی سے ملاقات کی، وہ گھوڑے پر سوار تھے اور مکان عدالت میں آ رہے تھے جس میں وہ فیصلہ کیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے یہی حدیث پوچھی تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا، کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آپ اپنا کپڑا غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہوا چلے گا، قیامت کے دن اس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر نہیں کرے گا۔ (شعبہ نے کہا کہ) میں نے محارب سے پوچھا کیا حضرت ابن عمر ؓ نے تہمد کا ذکر کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ تہمد یا قمیص کسی کی انہوں نے تخصیص نہیں کی تھی۔ محارب کے ساتھ اس حدیث کو جبلہ بن سحیم اور زید بن اسلم اور زید بن عبد اللہ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے۔ اور لیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے ایسی ہی روایت کی اور نافع کے ساتھ اس کو موسیٰ بن عقبہ اور عمر بن محمد اور قدامہ بن موسیٰ نے بھی سالم سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی اس میں یوں ہے کہ جو شخص اپنا کپڑا (ازراہ تکبر) لٹکائے۔
حدیث حاشیہ:
جبلہ بن سحیم کی روایت کو امام نسائی نے اور زید بن اسلم کی روایت کو امام مسلم نے وصل کیا۔ موسیٰ کی روایت خود اسی کتاب میں شروع کتاب اللباس میں اور عمر بن محمد کی صحیح مسلم میں اور قدامہ کی صحیح ابو عوانہ میں موصول ہے۔ تہمد ہو یا قمیص جو بھی ازراہ تکبر لٹکا کر چلے گا اس کو بالضرور یہ سزا ملے گی صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) said, "Whoever drags his clothes (on the ground) out of pride and arrogance, Allah will not look at him on the Day of Resurrection."