مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ ” اب تم میری اس قمیص کو لے جاؤ اور اس کو میرے والد کے چہرے پر ڈال دوتو ان کی آنکھیں بفضلہ تعالیٰ روشن ہوجائیں گی ۔
5796.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مرگیا تو اس کا بیٹا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنی قمیض دیں تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں، نیز آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ نبی ﷺ نے اسے اپنی قمیض دے دی اور فرمایا: ”جب(اسے غسل دے کر) تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کرنا۔“ چنانچہ جب وہ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، لیکن حضرت عمر بن خطاب ؓ نے (بڑے ادب سے) آپ کو پیچھے کھینچا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا؟ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالٰی انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ پھر یہ آیت نازل ہوئی: ”ان (منافقین) میں سے جو مر جائے تو آپ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور انہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنا ترک کر دی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے منع نہیں فرمایا اور میں اس کے لیے ستر بار سے بھی زیادہ مرتبہ دعا کروں گا۔ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدفطرت کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے جو ایک مخلص مسلمان تھے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قمیص پہننا جائز ہے اور اس کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے۔ (3) واضح رہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن ابی منافق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص دے کر اس احسان کا بدلہ دیا تھا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5577
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5796
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5796
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5796
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ قمیص پہننا کوئی نئی چیز نہیں ہے اگرچہ عرب عام طور پر چادر اور تہ بند پہنتے تھے۔ قرآن کریم کی اس آیت میں قمیص کا ذکر ہے، اس کے علاوہ متعدد احادیث میں بھی ان کا بیان ہوا ہے۔ بہرحال ابن عربی کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ میں نے مذکورہ آیت اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے واقعے کے علاوہ کسی صحیح حدیث میں قمیص کا ذکر نہیں دیکھا۔ (فتح الباری: 10/328)
اور اللہ پاک نے سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ ” اب تم میری اس قمیص کو لے جاؤ اور اس کو میرے والد کے چہرے پر ڈال دوتو ان کی آنکھیں بفضلہ تعالیٰ روشن ہوجائیں گی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مرگیا تو اس کا بیٹا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنی قمیض دیں تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں، نیز آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ نبی ﷺ نے اسے اپنی قمیض دے دی اور فرمایا: ”جب(اسے غسل دے کر) تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کرنا۔“ چنانچہ جب وہ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، لیکن حضرت عمر بن خطاب ؓ نے (بڑے ادب سے) آپ کو پیچھے کھینچا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا؟ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالٰی انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ پھر یہ آیت نازل ہوئی: ”ان (منافقین) میں سے جو مر جائے تو آپ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور انہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنا ترک کر دی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے منع نہیں فرمایا اور میں اس کے لیے ستر بار سے بھی زیادہ مرتبہ دعا کروں گا۔ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدفطرت کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے جو ایک مخلص مسلمان تھے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قمیص پہننا جائز ہے اور اس کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے۔ (3) واضح رہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن ابی منافق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص دے کر اس احسان کا بدلہ دیا تھا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو نافع نے خبر دی، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو اس کے لڑکے (حضرت عبداللہ) جو مخلص اور اکابر صحابہ میں تھے رسول اللہ ﷺ! کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اپنی قمیص مجھے عطا فرمایئے تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں اور آپ ان کی نماز جنازہ پڑھا دیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنی قمیص انہیں عطا فرمائی اور فرمایا کہ نہلا دھلا کر مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ جب نہلا دھلا لیا تو آنحضرت ﷺ کواطلاع دی آنحضور ﷺ تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں لیکن حضرت عمر ؓ نے آپ کو پکڑ لیا اور عرض کیایا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ہے؟ اورفرمایا ہے کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا مغفرت کی دعا نہ کرو اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔“ پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اور ان میں سے کسی پر بھی جو مر گیا ہو ہرگز نماز نہ پڑھئے۔“ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔
حدیث حاشیہ:
آپ نے فرمایا مجھے اللہ پاک نے اختیار دیا ہے منع نہیں فرمایا اور میں ستر بار سے بھی زیادہ دعا کروں گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی ستر بار کافر یا منافق کے لیے فائدہ نہ بخشے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ کسی اور عالم یا درویش کی دعا سے کافر یا منافق کیونکر بخشا جائے گا اور جو ایسی ایسی حکایتوں پر اعتماد کرے وہ محض بے وقوف اور جاہل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin 'Umar (RA) : When Abdullah bin Ubdi (bin Salul) died, his son came to Allah's Apostle (ﷺ) and said ' O Allah's Apostle, give me your shirt so that I may shroud my fathers body in it. And please offer a funeral prayer for him and invoke Allah for his forgiveness." The Prophet (ﷺ) gave him his shirt and said to him 'Inform us when you finish (and the funeral procession is ready) call us. When he had finished he told the Prophet (ﷺ) and the Prophet (ﷺ) proceeded to order his funeral prayers but Umar stopped him and said, "Didn't Allah forbid you to offer the funeral prayer for the hypocrites when He said: "Whether you ( O Muhammad (ﷺ) ) ask forgiveness for them or ask not forgiveness for them: (and even) if you ask forgiveness for them seventy times. Allah will not forgive them." (9.80) Then there was revealed: "And never ( O Muhammad (ﷺ) ) pray for any of them that dies, nor stand at his grave." (9.34) Thenceforth the Prophet (ﷺ) did not offer funeral prayers for the hypocrites.