باب: قمیص کا گریبان سینے پر یا اور کہیں مثلاً ( کندھے پر ) لگانا
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The Jaib (pocket))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5797.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ان کی مثال دو آدمیوں جیسی ہے جنہوں نے لوہے کی دو زرہیں پہنی ہوئی ہوں اور ان کے ہاتھ سینے اور حلق تک پہنچے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی انگلیوں کے پورے چھپ جاتے ہیں اور قدموں کے نشانات بھی مٹ جاتے ہیں اور بخیل جب بھی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ تنگ ہو جاتی ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اس طرح اپنی مبارک انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کر کے بتا رہے تھے تم دیکھو وہ اس زرہ میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی ابن طاؤس نے اپنے باپ اور ابو زناد نے اعراج سے جبان بیان کرنے میں حسن کی متابعت کی ہے حنظلہ نے کہا: میں نے طاؤس سے سنا۔ انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو جنتان کہتے ہوئے سنا اور جعفر نے اعرج سے جبتان روایت کیا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق خرچ کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے زرہ پہنی اور وہ اس پر ڈھیلی ہو گئی حتی کہ اس نے اس کے سارے بدن کو ڈھانپ لیا اور وہ پاؤں کی انگلیوں تک پہنچ گئی اور بخیل کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کا ہاتھ اس کی گردن سے چمٹا ہوا ہے اور اس کی زرہ اس قدر تنگ ہے کہ ہاتھ باہر نہیں نکلتا اور وہ زرہ ڈھیلی نہیں ہوتی بلکہ اس کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گریبان کی طرف اشارہ فرمایا جو آپ کی قمیص میں سینے کے پاس تھا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے عنوان ثابت کیا ہے کہ گریبان سینے کے پاس ہوتا ہے۔ حضرت قرہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ مزینہ کی ایک جماعت کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے گریبان میں ڈال کر مہر نبوت کو چھوا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4082) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کا گریبان سینے کے پاس تھا۔ (3) واضح رہے کہ بٹن کھلے رکھنا اگر تواضع اور عاجزی کے طور پر ہو تو باعث اجروثواب ہے لیکن ہمارے ہاں اوباش لڑکے اپنا گریبان کھلا رکھتے ہیں، لہذا ان کی مشابہت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کے ہاں تکبر کی علامت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5578
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5797
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5797
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5797
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ان کی مثال دو آدمیوں جیسی ہے جنہوں نے لوہے کی دو زرہیں پہنی ہوئی ہوں اور ان کے ہاتھ سینے اور حلق تک پہنچے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ اس کی انگلیوں کے پورے چھپ جاتے ہیں اور قدموں کے نشانات بھی مٹ جاتے ہیں اور بخیل جب بھی صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ تنگ ہو جاتی ہے اور ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اس طرح اپنی مبارک انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کر کے بتا رہے تھے تم دیکھو وہ اس زرہ میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی ابن طاؤس نے اپنے باپ اور ابو زناد نے اعراج سے جبان بیان کرنے میں حسن کی متابعت کی ہے حنظلہ نے کہا: میں نے طاؤس سے سنا۔ انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو جنتان کہتے ہوئے سنا اور جعفر نے اعرج سے جبتان روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے مطابق خرچ کرنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے زرہ پہنی اور وہ اس پر ڈھیلی ہو گئی حتی کہ اس نے اس کے سارے بدن کو ڈھانپ لیا اور وہ پاؤں کی انگلیوں تک پہنچ گئی اور بخیل کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کا ہاتھ اس کی گردن سے چمٹا ہوا ہے اور اس کی زرہ اس قدر تنگ ہے کہ ہاتھ باہر نہیں نکلتا اور وہ زرہ ڈھیلی نہیں ہوتی بلکہ اس کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گریبان کی طرف اشارہ فرمایا جو آپ کی قمیص میں سینے کے پاس تھا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے عنوان ثابت کیا ہے کہ گریبان سینے کے پاس ہوتا ہے۔ حضرت قرہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ مزینہ کی ایک جماعت کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے گریبان میں ڈال کر مہر نبوت کو چھوا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4082) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کا گریبان سینے کے پاس تھا۔ (3) واضح رہے کہ بٹن کھلے رکھنا اگر تواضع اور عاجزی کے طور پر ہو تو باعث اجروثواب ہے لیکن ہمارے ہاں اوباش لڑکے اپنا گریبان کھلا رکھتے ہیں، لہذا ان کی مشابہت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کے ہاں تکبر کی علامت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال بیان کی کہ دو آدمیوں جیسی ہے جو لوہے کے جبے ہاتھ ، سینہ اور حلق تک پہنے ہوئے ہیں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو اس کے جبہ میں کشادگی ہو جاتی ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتا ہے اور قدم کے نشانات کو ڈھک لیتا ہے اور بخیل جب بھی کبھی صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اسے اور چمٹ جاتا ہے اورہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ اس طرح اپنی مبارک انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کر کے بتا رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس میں وسعت پیدا کرنا چاہے گا لیکن وسعت پیدا نہیں ہوگی۔ اس کی متابعت ابن طاؤس نے اپنے والد سے کی ہے اور ابو الزناد نے اعرج سے کی۔ ”دو جبوں“ کے ذکر کے ساتھ اور حنظلہ نے بیان کیا کہ میں نے طاؤس سے سنا، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے کہا "جبتان'' اور جعفر نے اعرج کے واسطہ سے "جنتان'' کالفظ بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
جبتان سے دو کرتے اور جنتان سے دو زرہیں مراد ہیں اپنے گریبان کی طرف اشارہ کرنے ہی سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ آپ کے کرتے کا گریبان سینے پر تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) came to visit Abdullah bin Ubai (bin Salul) after he had been put in his grave. The Prophet (ﷺ) ordered that 'Abdullah be taken out. He was taken out and was placed on the knees on the knees of the Prophet, who blew his (blessed) breath on him and dressed the body with his own shirt. And Allah knows better.