مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5820.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو لباسوں اور خریدو فروخت کی دو قسموں سے منع فرمایا ہے : آپ نے بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے منع فرمایا: ملامسہ بیع یہ ہے کہ کوئی آدمی دن یا رات میں اپنے ہاتھ سے کسی دوسرے کا کپڑا چھولے اور اسے کھول کر نہ دیکھے اسی سے بیع پختہ کرے۔ منابذہ کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی اپنا کپڑا دوسرے آدمی کی طرف اور وہ اس کی طرف پھینکےاور بغیر دیکھے اور باہمی رضامندی کے بغیر ہی بیع منعقد ہو جائے۔ اور جن دو لباسوں سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ان میں سے ایک اشتمال الصماء کہ انسان اپنا کپڑا اپنے کندھے پر اس طرح ڈالے کہ دوسری طرف ننگی ہو اور اس پر کوئی کپڑا نہ ہو۔ اور دوسرا لباس احتباء (گوٹ مار کر بیٹھنا) ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بیٹھ کر اپنے کپڑے سے کمر اور پنڈلیاں باندھ لی جائیں اور شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو۔
تشریح:
(1) دور جاہلیت میں عربوں کے ہاں اس قسم کی خریدوفروخت عام تھی، اس سے اسلام نے منع فرما دیا کیونکہ اس میں دھوکا ہوتا تھا اور اسی طرح ان کے ہاں مجلس میں بیٹھنے کا ایک طریقہ یہ ہوتا تھا جس کی حدیث میں وضاحت کی گئی ہے۔ (2) بیٹھنے کی اس صورت میں شرمگاہ کھل جایا کرتی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ احتباء میں اگر پردے کا اہتمام ہو تو اس طرح بیٹھنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5599
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5820
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5820
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5820
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
ایک ہی کپڑے کو اس طرح لپیٹ لینا کہ ہاتھ پاؤں باہر نہ نکل سکیں اسے عربی میں اشتمال الصماء کہتے ہیں ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس صورت میں انسان کسی طرح نہیں سنبھل سکتا۔ اس انداز کو پیجابی میں ”بولی بکل“ کہتے ہیں
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو لباسوں اور خریدو فروخت کی دو قسموں سے منع فرمایا ہے : آپ نے بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے منع فرمایا: ملامسہ بیع یہ ہے کہ کوئی آدمی دن یا رات میں اپنے ہاتھ سے کسی دوسرے کا کپڑا چھولے اور اسے کھول کر نہ دیکھے اسی سے بیع پختہ کرے۔ منابذہ کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی اپنا کپڑا دوسرے آدمی کی طرف اور وہ اس کی طرف پھینکےاور بغیر دیکھے اور باہمی رضامندی کے بغیر ہی بیع منعقد ہو جائے۔ اور جن دو لباسوں سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ان میں سے ایک اشتمال الصماء کہ انسان اپنا کپڑا اپنے کندھے پر اس طرح ڈالے کہ دوسری طرف ننگی ہو اور اس پر کوئی کپڑا نہ ہو۔ اور دوسرا لباس احتباء (گوٹ مار کر بیٹھنا) ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بیٹھ کر اپنے کپڑے سے کمر اور پنڈلیاں باندھ لی جائیں اور شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) دور جاہلیت میں عربوں کے ہاں اس قسم کی خریدوفروخت عام تھی، اس سے اسلام نے منع فرما دیا کیونکہ اس میں دھوکا ہوتا تھا اور اسی طرح ان کے ہاں مجلس میں بیٹھنے کا ایک طریقہ یہ ہوتا تھا جس کی حدیث میں وضاحت کی گئی ہے۔ (2) بیٹھنے کی اس صورت میں شرمگاہ کھل جایا کرتی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ احتباء میں اگر پردے کا اہتمام ہو تو اس طرح بیٹھنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عامر بن سعد نے خبردی، اور ان سے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو طرح کے پہناوے اور دو طرح کی خرید وفروخت سے منع فرمایا۔ خرید فروخت میں ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔ ملامسہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص (خریدار) دوسرے (بیچنے والے) کے کپڑے کو رات یا دن میں کسی بھی وقت بس چھو دیتا (اور دیکھے بغیر صرف چھونے سے بیع ہو جاتی) صرف چھونا ہی کافی تھا کھول کردیکھا نہیں جاتا تھا۔ منابذہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی ملکیت کا کپڑا دوسرے کی طرف پھینکتا اور دوسرا اپنا کپڑا پھینکتا اور بغیر دیکھے اور بغیر باہمی رضامندی کے صرف اسی سے بیع منعقد ہو جاتی اور دو کپڑے (جن سے آنحضور ﷺ نے منع فرمایا انہیں میں سے ایک ) اشتمال صماء ہے۔ صماء کی صورت یہ تھی کہ اپنا کپڑا (ایک چادر) اپنے ایک شانے پر اس طرح ڈالا جاتا کہ ایک کنارہ سے (شرمگاہ) کھل جاتی اور کوئی دوسرا کپڑا وہاں نہیں ہوتا تھا۔ دوسرے پہناوے کا طریقہ یہ تھا کہ بیٹھ کر اپنے ایک کپڑے سے کمر اور پنڈلی باندھ لیتے تھے اور شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri Allah's Apostle (ﷺ) forbade two ways of wearing clothes and two kinds of dealings. (A) He forbade the dealings of the Mulamasa and the Munabadha. In the Mulamasa transaction the buyer just touches the garment he wants to buy at night or by daytime, and that touch would oblige him to buy it. In the Munabadha, one man throws his garment at another and the latter throws his at the former and the barter is complete and valid without examining the two objects or being satisfied with them (B) The two ways of wearing clothes were Ishtimal-as-Samma, i e., to cover one's shoulder with one's garment and leave the other bare: and the other way was to wrap oneself with a garment while one was sitting In such a way that nothing of that garment would cover one's private part