باب: قزع یعنی کچھ سر منڈانا کچھ بال رکھنے کے بیان میں
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Al-Qaza')
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5920.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ قزع سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (راوی حدیث) عبید اللہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا قزع کیا ہے؟ پھر عبید اللہ نے ہمیں اشارے سے بتایا کہ بچےکا سر منڈواتے وقت کچھ بال یہاں چھوڑ دیے جائیں اور کچھ بال وہاں چھوڑ دیے جائیں۔ عبید اللہ نے اپنی پیشانی اور اپنے سر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کر کے ہمیں اس کی صورت سے آگاہ کیا۔ عبید اللہ سے پوچھا گیا: اس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کا ایک حکم ہے؟ فرمایا: مجھے معلوم نہیں، حضرت عمر بن نافع نے صرف بچے کا لفظ کہا تھا۔ عبید اللہ نے کہا: میں نے عمر بن نافع سے دوبارہ اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی پیشانی اور گدی کے بال مونڈھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن قزع یہ ہے کہ پیشانی کے بال چھوڑدیے جائیں اس کے سوا سر پر کوئی بال نہ ہو اس طرح سر کے اس طرف اور اس طرف یعنی دائیں بائیں کے پال چھوڑ دیے جائیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5696
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5920
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5920
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5920
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
کچھ بال منڈوا دینا اور کچھ بال رکھنا قزع کہلاتا ہے، اس عنوان میں قزع کی شرعی حیثیت کو بیان کیا جائے گا۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ قزع سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (راوی حدیث) عبید اللہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا قزع کیا ہے؟ پھر عبید اللہ نے ہمیں اشارے سے بتایا کہ بچےکا سر منڈواتے وقت کچھ بال یہاں چھوڑ دیے جائیں اور کچھ بال وہاں چھوڑ دیے جائیں۔ عبید اللہ نے اپنی پیشانی اور اپنے سر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کر کے ہمیں اس کی صورت سے آگاہ کیا۔ عبید اللہ سے پوچھا گیا: اس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کا ایک حکم ہے؟ فرمایا: مجھے معلوم نہیں، حضرت عمر بن نافع نے صرف بچے کا لفظ کہا تھا۔ عبید اللہ نے کہا: میں نے عمر بن نافع سے دوبارہ اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی پیشانی اور گدی کے بال مونڈھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن قزع یہ ہے کہ پیشانی کے بال چھوڑدیے جائیں اس کے سوا سر پر کوئی بال نہ ہو اس طرح سر کے اس طرف اور اس طرف یعنی دائیں بائیں کے پال چھوڑ دیے جائیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبیدا للہ بن حفص نے خبر دی، انہیں عمروبن نافع نے خبر دی، انہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے غلام نافع نے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے آپ نے ''قزع'' سے منع فرمایا، عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے پوچھا کہ قزع کیا ہے؟ پھر عبیداللہ نے ہمیں اشارہ سے بتایا کہ نافع نے کہا کہ بچہ کا سر منڈاتے وقت کچھ یہاں چھوڑ دے اورکچھ بال وہاں چھوڑ دے۔ (تو اسے قزع کہتے ہیں) اسے عبیداللہ نے پیشانی اورسر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کر کے ہمیں اس کی صورت بتائی۔ عبیداللہ نے اس کی تفسیریں بیان کی یعنی پیشانی پر کچھ بال چھوڑدیئے جائیں اور سر کے دونوں کونوں پر کچھ بال چھوڑ دیئے جائیں پھر عبیداللہ سے پوچھا گیا کہ اس میں لڑکا اورلڑکی دونوں کا ایک ہی حکم ہے؟ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ نافع نے صرف لڑکے کا لفظ کہا تھا۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ میں نے عمرو بن نافع سے دوبار ہ اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی کنپٹی یا گدی پر چوٹی کے بال اگر چھوڑ دیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ''قزع' یہ ہے کہ پیشانی پر بال چھوڑ دیئے جائیں اورباقی سب منڈ وائے جائیں اسی طرح سر کے اس جانب میں اور اس جانب میں۔
حدیث حاشیہ:
بال چھوڑنے کو قزع کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ubaidullah bin Hafs (RA) : that 'Umar bin Nafi' told him that Nafi', Maula 'Abdullah had heard 'Umar saying, "I heard Allah's Apostle (ﷺ) forbidding Al-Qaza'." 'Ubaidullah added: I said, "What is Al-Qaza'?" 'Ubaidullah pointed (towards his head) to show us and added, "Nafi' said, 'It is when a boy has his head shaved leaving a tuft of hair here and a tuft of hair there." Ubaidullah pointed towards his forehead and the sides of his head. 'Ubaidullah was asked, "Does this apply to both girls and boys?" He said, "I don't know, but Nafi' said, 'The boy.'" 'Ubaidullah added, "I asked Nafi' again, and he said, 'As for leaving hair on the temples and the back part of the boy's head, there is no harm, but Al-Qaza' is to leave a tuft of hair on his forehead unshaved while there is no hair on the rest of his head, and also to leave hair on either side of his head.'"