Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The obliteration of pictures)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5952.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو اپنے گھر میں جب بھی کوئی ایسی چیز ملتی جس میں صلیب کی تصویر ہوتی تو آپ اسے توڑ ڈالتے تھے۔
تشریح:
(1) عیسائی لوگ صلیب کی عبادت کرتے ہیں، حالانکہ یہ جاندار نہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں کہیں اس کی تصویر دیکھتے اسے ختم کر دیتے تاکہ دنیا میں شرک کا دروازہ بند ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کی عبادت کی جاتی ہو اسے گھر میں رکھنا جائز نہیں بلکہ اس کا توڑنا ضروری ہے۔ صلیب پر تعزیہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ صلیب تو ایک پیغمبر کے واقعے کی تصویر ہے لیکن تعزیے میں تو یہ بات بھی نہیں ہے۔ وہ تو مصنوعی طور پر ایک مقبرے کی شبیہ ہوتی ہے لیکن عوام اس کی پوجا کرتے ہیں، اس کے سامنے جھکتے ہیں، اس پر نذرونیاز چڑھاتے ہیں، ان سب چیزوں کا توڑ پھینکنا ضروری ہے۔
(2)عنوان میں تصاویر توڑنے کا بیان تھا جبکہ حدیث میں صلیب توڑنے کا بیان ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلیب کے توڑنے سے تصویروں کو ختم کرنے کا استنباط کیا ہے کیونکہ ان میں قدر مشترک اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی پوجا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عنوان میں تصاویر سے مراد وہی تصویریں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کی جاتی ہے، خواہ وہ جاندار کی ہوں یا بے جان چیزوں کی۔ (فتح الباري: 473/10) ہمارے رجحان میں بھی یہی ہے کہ ایسے درخت یا پہاڑ جن کی لوگ عبادت کرتے ہوں ان کی تصاویر لٹکانا بھی جائز نہیں، ہاں جن کی عبادت نہیں ہوتی اگر وہ کسی بے جان کی تصاویر ہیں تو انہیں رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5729
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5952
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5952
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5952
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو اپنے گھر میں جب بھی کوئی ایسی چیز ملتی جس میں صلیب کی تصویر ہوتی تو آپ اسے توڑ ڈالتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عیسائی لوگ صلیب کی عبادت کرتے ہیں، حالانکہ یہ جاندار نہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں کہیں اس کی تصویر دیکھتے اسے ختم کر دیتے تاکہ دنیا میں شرک کا دروازہ بند ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کی عبادت کی جاتی ہو اسے گھر میں رکھنا جائز نہیں بلکہ اس کا توڑنا ضروری ہے۔ صلیب پر تعزیہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ صلیب تو ایک پیغمبر کے واقعے کی تصویر ہے لیکن تعزیے میں تو یہ بات بھی نہیں ہے۔ وہ تو مصنوعی طور پر ایک مقبرے کی شبیہ ہوتی ہے لیکن عوام اس کی پوجا کرتے ہیں، اس کے سامنے جھکتے ہیں، اس پر نذرونیاز چڑھاتے ہیں، ان سب چیزوں کا توڑ پھینکنا ضروری ہے۔
(2)عنوان میں تصاویر توڑنے کا بیان تھا جبکہ حدیث میں صلیب توڑنے کا بیان ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلیب کے توڑنے سے تصویروں کو ختم کرنے کا استنباط کیا ہے کیونکہ ان میں قدر مشترک اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی پوجا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عنوان میں تصاویر سے مراد وہی تصویریں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کی جاتی ہے، خواہ وہ جاندار کی ہوں یا بے جان چیزوں کی۔ (فتح الباري: 473/10) ہمارے رجحان میں بھی یہی ہے کہ ایسے درخت یا پہاڑ جن کی لوگ عبادت کرتے ہوں ان کی تصاویر لٹکانا بھی جائز نہیں، ہاں جن کی عبادت نہیں ہوتی اگر وہ کسی بے جان کی تصاویر ہیں تو انہیں رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے عمران بن حطان نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر میں جب بھی کوئی چیز ایسی ملتی جس پر صلیب کی مورت بنی ہو (جیسے نصاریٰ رکھتے ہیں) تو اس کو توڑ ڈالتے۔
حدیث حاشیہ:
حالانکہ صلیب جاندار چیز نہیں ہے مگر نصاریٰ خصوصاً رومن کیتھولک صلیب کی پرستش کرتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جہاں پاتے توڑ ڈالتے، اللہ کے سوا جو چیز پوجی جائے اس کا یہی حکم ہے، اس کو توڑ پھوڑ کر برا بر کر دینا چاہیئے تاکہ دنیا میں شرک نہ پھیلے۔ صلیب پر تعزیہ کو بھی قیاس کرنا چاہیئے۔ صلیب تو ایک پیغمبر کے واقعہ کی تصویر ہے اور تعزیہ میں تو یہ بات بھی نہیں ہے وہ صرف ایک مقبرہ کی مثل ہوتی ہے لیکن عوام اس کی پرستش کرتے ہیں، اس کے سامنے جھکتے ہیں، اس پر نذر ونیاز چڑھا تے ہیں، اسی طرح سدے علم وغیرہ ان سب کا توڑ پھینکنا ضروری ہے۔ اسلامی شریعت میں اللہ کے سوا کسی کی پوجا جائز نہیں ہے جن بزرگوں اور اولیاء کی قبور مثل مساجد بنا کر پرستش گاہ بنی ہوئی ہیں ان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تھا کہ جو بلند قبر دیکھیں اس کو برابر کر دیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں ابوالسیاج اسدی کو بھی یہی حکم دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : I never used to leave in the Prophet (ﷺ) house anything carrying images or crosses but he obliterated it.