Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The obliteration of pictures)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5953.
حضرت ابو زرعہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مدینہ طیبہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ہمراہ ایک گھر میں داخل ہوا تو ایک مصور کو دیکھا جو چھت پر تصویریں بنا رہا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو میرے پیدا کرنے کی طرح چیزیں پیدا کرنے چلا ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایک دانہ یا ایک چیونٹی پیدا کر کے دکھائیں۔“ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک پانی کا برتن منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ بغلوں تک دھوئے میں نے عرض کی: اے ابو ہریرہ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے جہاں تک زیور پہنا جا سکتا ہے وہاں تک دھویا ہے۔
تشریح:
(1) حدیث کے عموم میں ہر تصویر داخل ہے، خواہ مجسم ہو یا غیر مجسم۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جس تصویر کو دیکھ کر یہ حدیث بیان کی وہ غیر مجسم تصویر تھی جو مصور، چھت پر بنا رہا تھا۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ کپڑے کی تصویر کو جائز خیال کرتے ہیں اور ان تصویروں کو ناجائز کہتے ہیں جن کا جسم ٹھوس ہو، اس حدیث سے ان کی تردید ہوتی ہے کیونکہ چھت پر بنی تصویروں کا کوئی جسم نہ تھا۔ (2) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا تھا کہ وہ کعبہ میں جائیں اور اس میں موجود سب تصویروں کو مٹا دیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے جب تک انہیں ختم نہیں کیا گیا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4156) تصویر کو دو صورتوں میں رکھا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ اس کا سر کاٹ کر اسے درخت کی طرح بنا دیا جائے دوسری صورت یہ ہے کہ اسے پاؤں تلے روندا جائے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4158) تصویروں والا کپڑا بھی اس انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ اس میں تصویروں کی بے قدری کا اظہار ہو، مثلاً: بستر پر بچھانے والی چادر یا بیٹھنے کے لیے کرسیوں کی گدیاں وغیرہ بنا لی جائیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5730
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5953
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5953
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5953
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابو زرعہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مدینہ طیبہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ہمراہ ایک گھر میں داخل ہوا تو ایک مصور کو دیکھا جو چھت پر تصویریں بنا رہا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو میرے پیدا کرنے کی طرح چیزیں پیدا کرنے چلا ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایک دانہ یا ایک چیونٹی پیدا کر کے دکھائیں۔“ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک پانی کا برتن منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ بغلوں تک دھوئے میں نے عرض کی: اے ابو ہریرہ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے جہاں تک زیور پہنا جا سکتا ہے وہاں تک دھویا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کے عموم میں ہر تصویر داخل ہے، خواہ مجسم ہو یا غیر مجسم۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جس تصویر کو دیکھ کر یہ حدیث بیان کی وہ غیر مجسم تصویر تھی جو مصور، چھت پر بنا رہا تھا۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ کپڑے کی تصویر کو جائز خیال کرتے ہیں اور ان تصویروں کو ناجائز کہتے ہیں جن کا جسم ٹھوس ہو، اس حدیث سے ان کی تردید ہوتی ہے کیونکہ چھت پر بنی تصویروں کا کوئی جسم نہ تھا۔ (2) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا تھا کہ وہ کعبہ میں جائیں اور اس میں موجود سب تصویروں کو مٹا دیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے جب تک انہیں ختم نہیں کیا گیا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4156) تصویر کو دو صورتوں میں رکھا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ اس کا سر کاٹ کر اسے درخت کی طرح بنا دیا جائے دوسری صورت یہ ہے کہ اسے پاؤں تلے روندا جائے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4158) تصویروں والا کپڑا بھی اس انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ اس میں تصویروں کی بے قدری کا اظہار ہو، مثلاً: بستر پر بچھانے والی چادر یا بیٹھنے کے لیے کرسیوں کی گدیاں وغیرہ بنا لی جائیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے، کہا ہم سے عمارہ نے، کہا ہم سے ابو زرعہ نے، کہا کہ میں ابو ہریرہ ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ میں (مروان بن حکم کے گھر میں) گیا تو انہوں نے چھت پر ایک مصور کو دیکھا جو تصویر بنا رہا تھا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ ارشاد فر تا ہے) اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو میری مخلوق کی طرح پیدا کرنے چلا ہے اگر اسے یہی گھمنڈ ہے تو اسے چاہیئے کہ ایک دانہ پیدا کرے، ایک چیونٹی پیدا کرے۔ پھر انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور اپنے ہاتھ اس میں دھوئے۔ جب بغل دھونے لگے تو میں نے عرض کیا ابو ہریرہ! کیا (بغل تک دھونے کے بارے میں) تم نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سنا ہے انہوں نے کہا میں نے جہاں تک زیور پہنا جا سکتا ہے وہاں تک دھویا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے گویا اس حدیث سے استنباط کیا جس میں یہ ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے لوگ سفید پیشانی، سفید ہاتھ پاؤں وضو کی وجہ سے اٹھیں گے تو جہاں تک وضو میں اعضاء زیادہ دھوئے جائیں گے وہیں تک سفیدی پہنچے گی یا اس آیت سے استنباط کیا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ(الکھف: 31) یعنی جنت میں اہل جنت کو سونے کے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہ کا نام عبدالرحمن بن صخر ہے۔ غزوئہ خیبر کے سال اسلام لائے، خدمت نبوی میں ہر وقت حاضر رہتے۔ مدینہ میں سنہ 59ھ بعمر 75 سال وفات پائی۔ 5274 احادیث بنوی کے حافظ تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Zur'a (RA) : l entered a house in Madinah with Abu Hurairah (RA) , and he saw a man making pictures at the top of the house. Abu Hurairah (RA) said, "I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying that Allah said, 'Who would be more unjust than the one who tries to create the like of My creatures? Let them create a grain: let them create a gnat.' " Abu Hurairah (RA) then asked for a water container and washed his arms up to his armpits. I said, "O Abu i Hurairah! Is this something you have heard I from Allah's Apostle?" He said, "The limit for ablution is up to the place where the ornaments will reach on the Day of Resurrection.'