باب:اللہ تعالیٰ کا سورۃ حجرات میں ارشاد فرمانا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اورسچ بولنے والوں کے ساتھ رہو “ اور جھوٹ بولنے کی ممانعت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: "O you who believe! Be afraid of Allah, and be with those who are true")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6094.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سچائی“ نیکی کا راستہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک وہ صدیق کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ اور جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف کے جاتی ہے آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے ہاں کذاب (بہت جھوٹا) لکھا جاتا ہے۔
تشریح:
(1) انسان سچ بولتے بولتے سچ کا عادی بن جاتا ہے اور اسے سچائی کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے حتی کہ وہ صدقی کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے جو نبوت سے نچلا مرتبہ ہے، اور جھوٹ کا عادی انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے اور تمام مخلوق پر اس کے کذاب ہونے کا القا کیا جاتا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تعلیمات پر اپنی دعوت کی بنیاد رکھی تھی ان میں ایک سچائی کو اختیار کرنا بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے ہرقل کے دربار میں اس بات کا اقرار کیا تھا، (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان و کفر، سچ اور جھوٹ اور امانت و خیانت ایک مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘ (مسند أحمد:349/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5868
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6094
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6094
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6094
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
مذکورہ آیت کریمہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعے کے بعد نتیجے کے طور پر ذکر ہوئی ہے، چنانچہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ خود کہتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے مجھے سچ بولنے کی توفیق دی بصورت دیگر میں بھی ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے لوگ جھوٹ بولنے کی بنا پر ہلاک ہو گئے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث:4418)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سچائی“ نیکی کا راستہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک وہ صدیق کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ اور جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف کے جاتی ہے آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے ہاں کذاب (بہت جھوٹا) لکھا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) انسان سچ بولتے بولتے سچ کا عادی بن جاتا ہے اور اسے سچائی کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے حتی کہ وہ صدقی کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے جو نبوت سے نچلا مرتبہ ہے، اور جھوٹ کا عادی انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے اور تمام مخلوق پر اس کے کذاب ہونے کا القا کیا جاتا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تعلیمات پر اپنی دعوت کی بنیاد رکھی تھی ان میں ایک سچائی کو اختیار کرنا بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے ہرقل کے دربار میں اس بات کا اقرار کیا تھا، (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان و کفر، سچ اور جھوٹ اور امانت و خیانت ایک مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘ (مسند أحمد:349/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بلا شبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلا شبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اورایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہان تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اسی لئے فرمایا ''إِنما الأَعمالُ بِخواتیمِھَا'' عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو، ہر بخاری شریف کے پڑھنے والے کو اور مجھ نا چیز گنہگار بندے کو خاتمہ بالخیر نصیب کرے، توحید وسنت وکلمہ طیبہ پر خاتمہ ہو۔ امید ہے کہ اس مقام پر جملہ قارئین کرام آمین کہیں گے. آمین ۔ یارب العالمین!
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Truthfulness leads to righteousness, and righteousness leads to Paradise. And a man keeps on telling the truth until he becomes a truthful person. Falsehood leads to Al-Fajur (i.e. wickedness, evil-doing), and Al-Fajur (wickedness) leads to the (Hell) Fire, and a man may keep on telling lies till he is written before Allah, a liar."