Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: To honour guest and to serve him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اوراللہ تعالیٰ کے فرمان ” ابراہیم علیہ السلام کے مہمان جن کی عزت کی گئی “ کی تفسیر ۔
6137.
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے) بھیجتے ہیں ہم لوگوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہماری میزبانی نہیں کرتے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ”اگر تم کسی ایسی قوم کے پاس پڑاؤ کرو جو تمہارے لیے مہمان کے شایان شان اہتمام کریں تو وہ قبول کرو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو مہمانی کا حق دستور کے مطابق ان سے وصول کرلو۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5912
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6137
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6137
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6137
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
مہمانوں کے سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''کیا تیرے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے۔'' (الذاریات51: 24) اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ مہمان قابل احترام ہوتا ہے۔ اس کا اکرام و احترام کرنا چاہیے کیونکہ آیت کریمہ میں مہمانوں کی صفت ''(مُكْرَمِينَ)'' کے الفاظ سے بیان ہوئی ہے، پھر ان کی مہمان نوازی خود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی، اس لیے میزبان کو بذات خود یہ خدمت بجا لانا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے لغوی بحث بھی کی ہے جس کا عوام الناس کو کوئی فائدہ نہیں، اس لیے ہم اس کی وضاحت کو نظر انداز کرتے ہیں۔
اوراللہ تعالیٰ کے فرمان ” ابراہیم علیہ السلام کے مہمان جن کی عزت کی گئی “ کی تفسیر ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے) بھیجتے ہیں ہم لوگوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہماری میزبانی نہیں کرتے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ”اگر تم کسی ایسی قوم کے پاس پڑاؤ کرو جو تمہارے لیے مہمان کے شایان شان اہتمام کریں تو وہ قبول کرو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو مہمانی کا حق دستور کے مطابق ان سے وصول کرلو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا: «ھو ذور وھو لاء ذور وصیف» کے معنیٰ ہیں: اضیاف اور زوار کیونکہ یہ مصدر ہیں۔جیسے وقم رضاً اور عدل ہے چنانچہ کہا جاتا ہے۔ ماًء غور اور بثرغورً اور مباہ غورً نیز کہا جاتا ہے کہ الغور کے معنیٰ ہیِں: الغائر یعنی گہرا پانی جہاں ڈول نہ پہنچ سکے اور ہر چیز جس میں تو گھس جائے تو وہ مغارو ہے۔
تراوز کے معنی ہیں: ایک طرف جھک جانا۔ یہ ذور سے مشتق ہے اور اوزر کے معنیٰ ہیں: بہت جھکا ہوا
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابو الخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لئے) بھیجتے ہیں اور راستے میں ہم بعض قبیلوں کے گاؤں ميں قیام کرتے ہیں لیکن وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے، آنحضرت ﷺ کا اس سلسلے میں کیا اشارہ ہے؟ آنحضرت ﷺ نے اس پر ہم سے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کے پاس جا کر اترو اور وہ جیسا دستور ہے مہمانی کے طور پرتم کو کچھ دیں تو اسے منظور کر لو اگر نہ دیں تو مہمانی کا حق قاعدے کے موافق ان سے وصول کر لو۔
حدیث حاشیہ:
اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں عرب کے مروجہ دستور کے تحت تھا جب مسافروں کے لئے دوران سفر میں جہاں مسافر قیام کرتا وہاں والوں کو ان کے کھلانے پلانے کا انتظام کرنا ضروری تھا۔ آج ہوٹلوں کا دور ہے مگرحدیث کا منشاء آج بھی واجب العمل ہے کہ مہمانوں کی خبر گیری کرنا ضروری ہے۔ مولوی عبدالحق بن فضل اللہ غزنوی جو امام شوکانی کے بلاواسطہ شاگرد تھے اور مترجم (وحیدالزماں) نے صغر سنی میں ان سے تلمذ کیا ہے، بڑے ہی متبع سنت اورحق پرست تھے۔ مولانا موصوف کا قاعدہ تھا کہ کسی کے ہاں جاتے تو تین دن سے زیادہ ہر گز نہ کھاتے بلکہ تین دن کے بعد اپنا انتظام خود کرتے۔ (رحمۃ اللہ علیہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Uqba bin 'Amir (RA) : We said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You send us out and it happens that we have to stay with such people as do not entertain us. What do you think about it?" Allah's Apostle (ﷺ) said to us, "If you stay with some people and they entertain you as they should for a guest, accept is; but if they do not do then you should take from them the right of the guest, which they ought to give."