Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: The signs of loving Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا کہ ” اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا ۔“بغیر اطاعت رسول ﷺمحبت الٰہی کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔
6171.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کی: میں نے قیامت کی تیاری میں نہ زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ زیادہ صدقات دیے ہیں، البتہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔“
تشریح:
(1) ان روایات میں (من أحب) عام ہے، اللہ تعالیٰ سے محبت کرے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے اور لوگوں سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کرے، یعنی وہ مخلص ہو، ریا کار نہ ہو، ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات اس محبت کے پس منظر میں نہ ہوں تو جن سے محبت کرے گا قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ حسن نیت کے ساتھ عمل کی زیادتی کے بغیر وہ جنت میں ان کے ساتھ ہو گا اور ان کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ درجات میں بھی ان کے برابر ہو گا۔ (2) بہرحال جو شخص اللہ کے لیے نیک لوگوں سے محبت کرے گا اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت میں جمع کر دے گا اگرچہ عمل و کردار میں ان سے کم ہو جیسا کہ آخری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بدنی اور مالی عبادات سے فرائض کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا لیکن اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چونکہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، لہذا تیرا مقام عام لوگوں سے بلند ہو گا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5945
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6171
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6171
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6171
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
حب اللہ سے مراد اللہ کے بندوں سے محبت کرنا، لہذا اللہ محب اور بندے محبوب ہوئے۔ اس صورت میں حب کی اضافت اپنے فاعل کی طرف ہو گی۔ یہ بھی احتمال ہے کہ بندوں کا اللہ سے محبت کرنا گویا بندے محب اور اللہ محبوب ہوا، اس صورت میں حب کی اضافت مفعول کی طرف ہو گی۔ تیسرا یہ بھی احتمال ہے کہ بندے آپس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کریں جس میں ریاکاری، ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات کا دخل نہ ہو۔ لیکن آیت کریمہ پہلی دو قسموں کے موافق معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو حب اللہ کی علامت ٹھہرایا گیا ہے۔ پہلی قسم میں علامت اس طرح ہے کہ اتباع کی مسبب ہے اور دوسری صورت میں یہ اتباع کا سبب ہے۔ بہرحال جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کا دم بھرتا ہے لیکن سنت رسول کی مخالفت میں پیش پیش ہے تو وہ اپنے دعوت میں جھوٹا ہے اور قرآن اس کی تکذیب کرتا ہے۔ واللہ اعلم
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا کہ ” اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا ۔“بغیر اطاعت رسول ﷺمحبت الٰہی کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرض کی: میں نے قیامت کی تیاری میں نہ زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ زیادہ صدقات دیے ہیں، البتہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان روایات میں (من أحب) عام ہے، اللہ تعالیٰ سے محبت کرے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے اور لوگوں سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت کرے، یعنی وہ مخلص ہو، ریا کار نہ ہو، ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات اس محبت کے پس منظر میں نہ ہوں تو جن سے محبت کرے گا قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ حسن نیت کے ساتھ عمل کی زیادتی کے بغیر وہ جنت میں ان کے ساتھ ہو گا اور ان کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ درجات میں بھی ان کے برابر ہو گا۔ (2) بہرحال جو شخص اللہ کے لیے نیک لوگوں سے محبت کرے گا اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت میں جمع کر دے گا اگرچہ عمل و کردار میں ان سے کم ہو جیسا کہ آخری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بدنی اور مالی عبادات سے فرائض کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا لیکن اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چونکہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، لہذا تیرا مقام عام لوگوں سے بلند ہو گا۔‘‘
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ہمارے والد عثمان مروزی نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں عمرو بن مرہ نے، انہیں سالم بن ابی الجعد نے اور انہیں حضرت انس بن مالک ؓ نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا، یا رسول اللہ! قیامت کب قائم ہوگی؟ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کے لئے بہت ساری نمازیں، روزے اور صدقے نہیں تیار کر رکھے ہیں، لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
یہی حال مجھ ناچیز کا بھی ہے اللہ مجھ کو بھی اس حدیث کا مصداق بنائے آمین۔ امام ابو نعیم نے اس حدیث کے سب طریقوں کو کتاب المحبین میں جمع کیا ہے۔ بیس صحابہ کے قریب اس کے راوی ہیں۔ اس حدیث میں بڑی خوشخبری ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل بیت اور جملہ صحابہ کرام اور اولیاءاللہ سے محبت رکھتے ہیں۔ یا اللہ! ہم اپنے دلوں میں تیری اورتیرے حبیب اور صحابہ کرام کے بعد جس قدر حضرت امام بخاری کی محبت دلوں میں رکھتے ہیں وہ تجھ کو خوب معلوم ہے پس قیامت کے دن ہم کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بارگاہ رسالت میں شرف حضور عطا فرمانا، آمین یا رب العالمین۔ نیز میرے اہل بیت اور جملہ شائقین عظام، معاونین کرام کو بھی یہ شرف بخش دیجیو۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): A man asked the Prophet (ﷺ) "When will the Hour be established O Allah's Apostle?" The Prophet (ﷺ) . said, "What have you prepared for it?" The man said, " I haven't prepared for it much of prayers or fast or alms, but I love Allah and His Apostle." The Prophet (ﷺ) said, "You will be with those whom you love."