باب:اللہ پاک کا سورۂ فتح میں فرمانا کہ اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کشادگی کر لو تو کشادگی کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کشا دگی کرے گا اور جب تم سے کہا جا ئے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: "When you are told to make room in the assemblies, make room...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6270.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی نشست سے اٹھایا جائے کہ کوئی دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے لیکن وسعت اور کشادگی پیدا کرکے دوسرے کو بیٹھنے کا موقع دو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ (دوسرا) اس جگہ پر بیٹھے۔
تشریح:
(1) پہلے سے بیٹھا ہوا شخص ہی زیادہ حق دار ہے کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے۔ ہاں، اگر اٹھنے والا اپنی خوشی سے ایسا کرے تو جائز ہے دوسرا وہاں بیٹھ جائے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’کسی کی عزت کی جگہ پر بیٹھنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ خوداجازت دے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1534(673) (2) اجازت ملنے کے باوجود تقویٰ اور پرہیز گاری کا تقاضا ہے کہ وہاں نہ بیٹھے بلکہ اسی کو وہاں بیٹھنے کا موقع دے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں ہے کہ اگر کوئی ان کے لیے مجلس میں اٹھتا اور انھیں وہاں بیٹھنے کا کہتا تو وہ وہاں نہ بیٹھے۔ (الأدب المفرد، حدیث:1153) اسی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ ایک دفعہ وہ گواہی دینے کے لیے تشریف لائے تو ایک آدمی مجلس میں ان کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو انھوں نے اس جگہ بیٹھنے سے انکار کر دیا اور حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4827)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6045
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6270
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6270
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6270
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
اس سے پہلے ایک ممانعت کا ذکر ہوا تھا کہ کسی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھایا جائے۔اب اہل مجلس کو ایک اور ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ مجلس میں کشادگی پیدا کرکے،آنے والے کے لیے بیٹھنے کی جگہ پیدا کریں۔بعض اہل علم کا خیال ہے کہ آیت کریمہ میں ذکر کردہ مجلس نبوی کے ساتھ خاص ہے،لیکن صحیح بات یہ ہے کہ مذکورہ حکم عام ہے۔ واللہ اعلم
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی نشست سے اٹھایا جائے کہ کوئی دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے لیکن وسعت اور کشادگی پیدا کرکے دوسرے کو بیٹھنے کا موقع دو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ (دوسرا) اس جگہ پر بیٹھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پہلے سے بیٹھا ہوا شخص ہی زیادہ حق دار ہے کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے۔ ہاں، اگر اٹھنے والا اپنی خوشی سے ایسا کرے تو جائز ہے دوسرا وہاں بیٹھ جائے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’کسی کی عزت کی جگہ پر بیٹھنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ خوداجازت دے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1534(673) (2) اجازت ملنے کے باوجود تقویٰ اور پرہیز گاری کا تقاضا ہے کہ وہاں نہ بیٹھے بلکہ اسی کو وہاں بیٹھنے کا موقع دے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں ہے کہ اگر کوئی ان کے لیے مجلس میں اٹھتا اور انھیں وہاں بیٹھنے کا کہتا تو وہ وہاں نہ بیٹھے۔ (الأدب المفرد، حدیث:1153) اسی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ ایک دفعہ وہ گواہی دینے کے لیے تشریف لائے تو ایک آدمی مجلس میں ان کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو انھوں نے اس جگہ بیٹھنے سے انکار کر دیا اور حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4827)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ عمری نے، ان سے نافع اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا یا جائے تاکہ دوسرا اس کی جگہ بیٹھے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کر دیا کرو اور حضرت ابن عمر ؓ ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص مجلس میں سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے۔
حدیث حاشیہ:
مجلس کے آداب میں سے یہ اہم ترین ادب ہے جس کی تعلیم اس حدیث میں دی گئی ہے آیت باب بھی اسی پاک تعلیم پر مشتمل ہے۔ قلت لفظ ابن عمر علی قتادة کانوا یتنافسو ن في مجلس النبي صلی اللہ علیه و سلم إذا راوہ مقبلا فسبقوا علیهم فأمرهم اللہ تعالیٰ أن یوسع بعضهم لبعض(فتح) یعنی صحابہ کرام جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور جگہ پکڑنے کی کوشش کرتے تھے اس پر ان کو مجلس میں کھل کر بیٹھنے کا حکم دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) forbade that a man should be made to get up from his seat so that another might sit on it, but one should make room and spread out. Ibn 'Umar (RA) disliked that a man should get up from his seat and then somebody else sit at his place.