Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The description of Paradise and the Fire)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
6571.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں آخری دوزخی کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور آخری جنتی کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا۔ ایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے نکلے گا، اللہ تعالٰی اسے فرمائے گا: جاؤ، جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ اس (جنت) کے پاس آئے گا تو خیال کرے گا کہ وہ تو بھری پڑی ہے چنانچہ وہ واپس آکر (اللہ) سے عرض کرےگا: اے میرے رب! میں نے اسے (جنت کو) بھرا ہوا پایا اللہ تعالٰی پھر (اسے) فرمائے گا: جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ تمہیں دنیا اور اس سے دس گناہ زیادہ دیا جاتا ہے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! تو میرا مذاق اڑاتا ہے، حالانکہ تو شہنشاہ ہے؟“ اس وقت میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اس بات پر ہنس دیے اور آپ کے اگلے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جنت میں سب سے کم درجے والا شخص ہوگا۔
تشریح:
بندے کو بار بار جنت میں جگہ خالی نہ ہونے کا احساس اس لیے دلایا گیا کہ جب وہ جنت میں جائے تو اسے زیادہ خوشی ہو۔ بہرحال جہنم سے نکلنے والے گناہ گار اپنے اپنے درجے کے مطابق جہنم سے نکالے جائیں گے۔ کم گناہوں والے پہلے اور زیادہ گناہوں والے آخر میں نکالے جائیں گے۔ کم سے کم درجے والے جنتی کو بھی کسی بادشاہ کی سلطنت سے دس گنا زیادہ جگہ ملے گی۔ اسی طرح کا واقعہ پل صراط سے گزرنے والے آخری شخص سے متعلق ہے کہ وہ پل صراط سے گزرتے ہوئے کبھی چلے گا اور کبھی گرے گا، کبھی اسے جہنم کی آگ جھلسا دے گی، آخر کار جب پل صراط سے گزر جائے گا تو اسے مخاطب ہو کر کہے گا بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 463 (187))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6340
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6571
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6571
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6571
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جنت اور دوزخ کے متعلق دو عنوان کتاب بدء الخلق میں بھی قائم کیے گئے تھے اور ان میں یہ بھی تھا کہ انہیں پیدا کیا جا چکا ہے اور مذکورہ باب کی بیشتر احادیث کو وہاں بیان کیا گیا تھا۔ (صحیح البخاری، بدء الخلق، باب: 8-10) امام بخاری رحمہ اللہ نے جنت کے مختلف ناموں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں دس حسب ذیل ہیں اور ان کا ذکر قرآن میں ہے: (1) الفردوس (2) دارالسلام (3) دارالخلد (4) دارالمقامة (5) جنة المأوٰي (6) النعيم (7) المقام الأمين (8) جنت عدن (9) مقعد صدق (10) الحسنیٰ۔ (فتح الباری: 11/510)
اور ابوسعید خدری ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہوگی۔ عدن کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں ” عدنت بارض “ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے معدن آتا ہے ” فی معدن صدق “ ( یا مقعد صدق جو سورۃ قمر میں ہے ) یعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔چونکہ یہ باب جنت کے میں ہے اور قرآن شریف میں جنت کا نام عدن آیا ہے اس لیے امام بخاری نے عدن کی تفسیر کی دی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں آخری دوزخی کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور آخری جنتی کو بھی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا۔ ایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے نکلے گا، اللہ تعالٰی اسے فرمائے گا: جاؤ، جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ اس (جنت) کے پاس آئے گا تو خیال کرے گا کہ وہ تو بھری پڑی ہے چنانچہ وہ واپس آکر (اللہ) سے عرض کرےگا: اے میرے رب! میں نے اسے (جنت کو) بھرا ہوا پایا اللہ تعالٰی پھر (اسے) فرمائے گا: جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ تمہیں دنیا اور اس سے دس گناہ زیادہ دیا جاتا ہے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! تو میرا مذاق اڑاتا ہے، حالانکہ تو شہنشاہ ہے؟“ اس وقت میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اس بات پر ہنس دیے اور آپ کے اگلے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جنت میں سب سے کم درجے والا شخص ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
بندے کو بار بار جنت میں جگہ خالی نہ ہونے کا احساس اس لیے دلایا گیا کہ جب وہ جنت میں جائے تو اسے زیادہ خوشی ہو۔ بہرحال جہنم سے نکلنے والے گناہ گار اپنے اپنے درجے کے مطابق جہنم سے نکالے جائیں گے۔ کم گناہوں والے پہلے اور زیادہ گناہوں والے آخر میں نکالے جائیں گے۔ کم سے کم درجے والے جنتی کو بھی کسی بادشاہ کی سلطنت سے دس گنا زیادہ جگہ ملے گی۔ اسی طرح کا واقعہ پل صراط سے گزرنے والے آخری شخص سے متعلق ہے کہ وہ پل صراط سے گزرتے ہوئے کبھی چلے گا اور کبھی گرے گا، کبھی اسے جہنم کی آگ جھلسا دے گی، آخر کار جب پل صراط سے گزر جائے گا تو اسے مخاطب ہو کر کہے گا بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 463 (187))
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کا ٹکڑا ہوگا۔“عدن کے معنی ہیں:ہمیشہ رہنا۔ کہا جاتا ہے۔ عدنت بارض میں نے اس جگہ قیام کیا۔ لفظ معدن بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ (فی مقعد صدق) کے معنیٰ ہیں: سچائی پیدا ہونے کی جگہ میں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصورنے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اہل جہنم میں سے کون سب سے آخر میں وہاں سے نکلے گا اور اہل جنت میں کون سب سے آخر میں اس میں داخل ہوگا۔ ایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے نکلے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ، وہ جنت کے پاس آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہوگا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ واپس آئے گا اور عرض کرے گا، اے میرے رب! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا، اللہ تعالیٰ پھر اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ پھر آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہوگا کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ واپس لوٹے گا اور عرض کرے گا کہ اے رب! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ تمہیں دنیا اور اس سے دس گنا دیا جاتا ہے یا (اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ) تمہیں دنیا کے دس گنا دیا جاتا ہے۔ وہ شخص کہے گا تو میرا مذاق بناتا ہے حالانکہ تو شہنشاہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ ﷺ ہنس ديے اور آپ کے آگے کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کا سب سے کم درجے والا شخص ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
بلند درجے والوں کا کیا کہنا، ان کو کیسے کیسے وسیع مکانات ملیں گے۔ حافظ نے کہا کہ یہ کلام بھی دوسری روایت سے نکلتا ہے جسے امام مسلم نے ابوسعید سے نکالا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "I know the person who will be the last to come out of the (Hell) Fire, and the last to enter Paradise. He will be a man who will come out of the (Hell) Fire crawling, and Allah will say to him, 'Go and enter Paradise.' He will go to it, but he will imagine that it had been filled, and then he will return and say, 'O Lord, I have found it full.' Allah will say, 'Go and enter Paradise, and you will have what equals the world and ten times as much (or, you will have as much as ten times the like of the world).' On that, the man will say, 'Do you mock at me (or laugh at me) though You are the King?" I saw Allah's Apostle (ﷺ) (while saying that) smiling that his premolar teeth became visible. It is said that will be the lowest in degree amongst the people of Paradise.