باب: اور اللہ نے جو حکم دیا ہے (تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا ہے) وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
)
Sahi-Bukhari:
Divine Will (Al-Qadar)
(Chapter: "And the Command of Allah is a decree determined")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6603.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے خبر دی کہ وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں قبیلہ انصار کا ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا؛ اللہ کے رسول! ہم لونڈیوں سے ہم بستری کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے مال سے بھی بہت پیار ہے لہذا آپ کا عزل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا تم ایسا کرتے ہو؟ اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارے لیے کچھ قباحت نہیں کیونکہ جس جان کا پیدا ہونا اللہ نے لکھ دیا تو وہ پیدا ہوکر رہے گی۔“
تشریح:
(1) جس لونڈی کو حمل ہو جائے اور وہ بچہ جنم دے لے تو وہ ام ولد بن جاتی ہے جسے فروخت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے وہ آدمی یہ تدبیر کرنا چاہتا تھا کہ ہم بستری بھی ہو جائے لیکن حمل کا امکان بھی نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کو پسند نہیں فرمایا اور اس کے بے کار ہونے کی طرف اشارہ کر دیا۔ ایک دوسری حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میری ایک باندی ہے جو میرے کام کاج کرتی ہے اور میں اس سے صحبت بھی کرتا ہوں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ وہ حاملہ ہو جائے (کیا میں عزل کر سکتا ہوں؟) آپ نے فرمایا: ''اگر تم چاہو تو عزل کر لو مگر اس کے مقدر میں جو بچہ لکھا جا چکا ہے وہ اسے جنم دے کر رہے گی۔'' کچھ عرصہ گزرا کہ وہی شخص پھر حاضر ہوا اور عرض کی کہ وہ تو حاملہ ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ''میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جو بچہ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے وہ اس سے ضرور پیدا ہو کر رہے گا۔'' (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3556 (1439)) (2) حدیث کی مراد یہ نہیں کہ اگر تقدیر میں اولاد مقدر ہو گی تو مرد کے نطفے کے بغیر بھی ہو کر رہے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر اولاد مقدر ہو گی تو عزل کے بعد بھی غیر شعوری طور پر اتنا مادہ رحم میں پہنچ جائے گا جو بچہ پیدا ہونے کے لیے کافی ہو گا، چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا تو اس وقت دوبارہ آپ نے اپنی بات دہرا دی۔ (3) یہ بات بھی مدنظر رہے کہ تقدیر تو آ کر رہتی ہے مگر اسباب کو توڑ کر نہیں بلکہ اس طرح کہ اس کے اسباب بھی ہو کر رہتے ہیں، مثلاً: ممکن ہے کہ عزل سے پہلے نطفے کا کوئی نہ کوئی حصہ نکل جائے اور اسی سے بچہ پیدا ہو جائے۔ اولاد کی پیدائش کے لیے پورے کا پورا مادہ تو ضروری نہیں ہے، چنانچہ ایک حدیث میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ''مرد کی ساری منی سے تو بچہ نہیں بنتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بچے کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں ہوتی۔'' (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3554 (1438)) ایسے حالات میں انسان کیا احتیاط کر سکتا ہے کہ عزل کرتے وقت ایک قطرہ منی بھی اندر نہ نکلنے پائے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6368
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6603
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6603
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6603
تمہید کتاب
قدر کے لغوی معنی تقدیر، یعنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہر چیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے اور ہم اسے ایک خاص مقدار میں نازل کرتے ہیں۔'' (الحجر 15/21) نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ''اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔'' (الفرقان: 25/2) قدر کے اصطلاحی معنی قدرتِ الٰہی اور باقاعدہ طریقے سے ایک محکم فیصلے کے ساتھ چیزوں کا اندازہ مقرر کرنا ہیں۔ قدر ہی کے معنی میں لفظ قضا بھی مستعمل ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ کچھ اہل علم نے ان میں فرق کیا ہے کہ قضا ازل میں اجمالی کلی حکم کا نام ہے اور قدر اس اجمالی کلی کی جزئیات اور تفصیلی امور ہیں جو مستقبل میں واقع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پختہ اور محکم انداز میں، منصوبہ بندی کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو ناقابل تغییر ہیں۔ارکان اسلام پانچ ہیں اور اصول ایمان چھ ہیں۔ اصول ایمان میں ایک اصل ایمان بالقدر، یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اور یقین محکم کے ساتھ مانا جائے کہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ ہو رہا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے جسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو کچھ چاہے لیکن دنیا کا یہ کارخانہ اس کی مرضی کے خلاف چلے یا کائنات کا نظام کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ اسے تسلیم کرنے سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بے بسی لازم آتی ہے۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کے متعلق کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق بحث و کٹ حجتی نہ کی جائے بلکہ عقل اور اپنے ذہن کی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیا جائے بلکہ اپنے دل اور دماغ کو اس طرح مطمئن کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان کیا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث و جدال کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے قضا و قدر کے متعلق بحث کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا حتی کہ آپ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں میں انار کے سرخ دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہارے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں؟ خبردار! تم سے پہلی قومیں اس بنا پر تباہ ہوئیں کہ انہوں نے تقدیر کے متعلق بحث و حجت کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق ہرگز بحث و جدال نہ کیا کرو۔'' (جامع الترمذی، القدر، حدیث: 2133)اس حدیث میں امتوں کی تباہی سے مراد ان کی گمراہی ہے کیونکہ ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اس وقت آئیں جب انہوں نے تقدیر کو بحث و جدال کا موضوع بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ ''مسئلۂ تقدیر'' سے شروع ہوا۔ ہاں، اگر کوئی تقدیر پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لیے تقدیر کے کسی مسئلے کے متعلق کسی اہل علم سے سوال کرتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پر تقدیر کے بعض پہلوؤں پر خود روشنی ڈالی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ہمارا دین بیان فرمائیں، گویا ہم اب پیدا ہوئے ہیں، آپ وضاحت فرمائیں کہ ہم لوگ جو عمل کرتے ہیں وہ اس لیے ہے کہ قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اور اس کے متعلق تقدیر جاری کی گئی ہے یا اس مقصد کے لیے ہے جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اعمال اسی مقصد کے لیے ہیں جسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے۔'' حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سن کر عرض کی: ایسے حالات میں عمل کا کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا: ''تم عمل کرتے رہو! ہر انسان کو اسی کام کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔'' (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6735 (2648))تقدیر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو مظفر بن سمعانی کے حوالے سے بہت عمدہ بات لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں: تقدیر کا باب صرف کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنے پر موقوف ہے۔ اس میں عقل و قیاس کو مطلق طور پر کوئی دخل نہیں ہے۔ جو شخص کتاب و سنت سے ہٹ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں لگا وہ گمراہ ہو گیا اور حیرت و تعجب کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے چشمۂ شفا کو نہیں پایا اور اس چیز تک نہیں پہنچ سکے گا جس سے اس کا دل مطمئن ہو کیونکہ مسئلۂ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ علیم و خبیر کے ساتھ اسے خاص کیا ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل، نیز ان کے علوم اور تقدیر کے درمیان پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا راز اور حکمت ہے کہ اس کا علم کسی نبئ مرسل اور مقرب فرشتے کو بھی نہیں دیا گیا۔ (فتح الباری: 11/582)تقدیر کے معاملے میں بندہ نہ بالکل مجبور ہے اور نہ بالکل مختار بلکہ اسے ایک ظاہری اختیار دیا گیا ہے جسے کسب کہتے ہیں۔ اسی اختیار کے استعمال کرنے سے اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جماعت سلف کا یہی موقف ہے۔ اس کے بعد امت میں جبریہ اور قدریہ پیدا ہوئے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ جمادات کی طرح بالکل مجبور اور بے بس ہیں۔ اسے اپنے کسی فعل کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس قدریہ کا کہنا ہے کہ بندے کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دخل نہیں بلکہ وہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اور جو کرتا ہے وہ مختارِ کل ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ ایک گروہ نے افراط کیا جبکہ دوسرا تفریط میں مبتلا ہوا اور اہل سنت نے ان کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف عقل و نقل پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں جو حوادث ہوتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایک وہ حوادث ہیں جن میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ظاہر کرتا ہے، مثلا: بارش برسانا، کھیت اگانا، کسی کو پیدا کرنا اور اسے موت دینا، صحت و بیماری کا آنا اس قسم کے افعال میں کسی مخلوق کو کوئی دخل نہیں۔ ٭ دوسرے وہ افعال ہیں جو ایسی مخلوق سے سرزد ہوتے ہیں جو ارادہ و اور اختیار رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قسم کے افعال کی نسبت بندوں کی طرف کی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ''تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے جبکہ کچھ آخرت کے چاہنے والے تھے۔'' (آل عمران: 3/152) اس آیت میں ارادے کی نسبت بندوں کی طرف کی گئی ہے۔اہل علم کے نزدیک تقدیر کے چار مراتب ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا مخلوق کرنے والی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم کے مطابق تمام اشیاء کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے۔ ٭ کائنات میں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ٭ اس عالم رنگ و بو میں تمام مخلوقات اور ان کے تمام اعمال کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ تقدیر کے مندرجہ بالا چاروں مراتب پر ایمان رکھیں اور انہیں تسلیم کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقدیر کے متعلق امت کی رہنمائی کرتے ہوئے کتاب القدر کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے انتیس (29) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں تین (3) معلق اور چھبیس (26) متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں بائیس (22) مکرر اور سات (7) خالص ہیں۔ بیان کردہ احادیث کو، سوائے دو (2) کے امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے پانچ (5) آثار بھی مروی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں جن کے ذریعے سے تقدیر سے متعلقہ مشکل گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم ان احادیث کے فوائد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰہمارے ہاں عام طور پر گناہ کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا تقدیر پر ایمان لانے کے بالکل منافی ہے۔ انسان دنیا بنانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لیتا ہے جبکہ نیک اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں۔ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں پیدا کیا ہے، لہذا ہمیں تقدیر پر بھروسا کر کے بدعملی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک اعمال کی طلب اور جستجو میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں جن کاموں کا فیصلہ کیا ہے وہ ضرور پورے ہوں گے اور اس کے اسباب بھی ہو کر رہیں گے۔ انسان ان کے خلاف خواہ کتنی ہی کوشش کر لے، انہیں دنیا کی کوئی طاقت واقع ہونے سے نہیں روک سکتی۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے خبر دی کہ وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں قبیلہ انصار کا ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا؛ اللہ کے رسول! ہم لونڈیوں سے ہم بستری کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے مال سے بھی بہت پیار ہے لہذا آپ کا عزل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا تم ایسا کرتے ہو؟ اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارے لیے کچھ قباحت نہیں کیونکہ جس جان کا پیدا ہونا اللہ نے لکھ دیا تو وہ پیدا ہوکر رہے گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جس لونڈی کو حمل ہو جائے اور وہ بچہ جنم دے لے تو وہ ام ولد بن جاتی ہے جسے فروخت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے وہ آدمی یہ تدبیر کرنا چاہتا تھا کہ ہم بستری بھی ہو جائے لیکن حمل کا امکان بھی نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کو پسند نہیں فرمایا اور اس کے بے کار ہونے کی طرف اشارہ کر دیا۔ ایک دوسری حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میری ایک باندی ہے جو میرے کام کاج کرتی ہے اور میں اس سے صحبت بھی کرتا ہوں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ وہ حاملہ ہو جائے (کیا میں عزل کر سکتا ہوں؟) آپ نے فرمایا: ''اگر تم چاہو تو عزل کر لو مگر اس کے مقدر میں جو بچہ لکھا جا چکا ہے وہ اسے جنم دے کر رہے گی۔'' کچھ عرصہ گزرا کہ وہی شخص پھر حاضر ہوا اور عرض کی کہ وہ تو حاملہ ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ''میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جو بچہ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے وہ اس سے ضرور پیدا ہو کر رہے گا۔'' (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3556 (1439)) (2) حدیث کی مراد یہ نہیں کہ اگر تقدیر میں اولاد مقدر ہو گی تو مرد کے نطفے کے بغیر بھی ہو کر رہے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر اولاد مقدر ہو گی تو عزل کے بعد بھی غیر شعوری طور پر اتنا مادہ رحم میں پہنچ جائے گا جو بچہ پیدا ہونے کے لیے کافی ہو گا، چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا تو اس وقت دوبارہ آپ نے اپنی بات دہرا دی۔ (3) یہ بات بھی مدنظر رہے کہ تقدیر تو آ کر رہتی ہے مگر اسباب کو توڑ کر نہیں بلکہ اس طرح کہ اس کے اسباب بھی ہو کر رہتے ہیں، مثلاً: ممکن ہے کہ عزل سے پہلے نطفے کا کوئی نہ کوئی حصہ نکل جائے اور اسی سے بچہ پیدا ہو جائے۔ اولاد کی پیدائش کے لیے پورے کا پورا مادہ تو ضروری نہیں ہے، چنانچہ ایک حدیث میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ''مرد کی ساری منی سے تو بچہ نہیں بنتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بچے کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں ہوتی۔'' (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3554 (1438)) ایسے حالات میں انسان کیا احتیاط کر سکتا ہے کہ عزل کرتے وقت ایک قطرہ منی بھی اندر نہ نکلنے پائے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبردی، انہیں زہری نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن محیریز جمحی نے خبردی، انہیں ابوسعید خدری ؓ نے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ انصار کا ایک آدمی آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لونڈیوں سے ہم بستری کرتے ہیں اورمال سے محبت کرتے ہیں۔ آپ کا عزل کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھا تم ایسا کرتے ہو، تمہارے لیے کچھ قباحت نہیں اگر تم ایسا نہ کرو، کیوں کہ جس جان کی بھی پیدائش اللہ نے لکھ دی ہے وہ ضرور پیدا ہوکر رہے گی۔
حدیث حاشیہ:
اس کا تجربہ آج کے دور میں بھی برابر ہورہا ہے۔ صدق النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ انزال کے وقت ذکرباہر نکال لینا عزل کہلاتا ہے۔ آپ نے اسے پسند نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA):
That while he was sitting with the Prophet (ﷺ) a man from the Ansar came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We get slave girls from the war captives and we love property; what do you think about coitus interruptus?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "Do you do that? It is better for you not to do it, for there is no soul which Allah has ordained to come into existence but will be created."