Sahi-Bukhari:
Divine Will (Al-Qadar)
(Chapter: "Say: 'Nothing shall ever happen to us except what Allah has ordained for us ...'")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کہ ” اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں صرف وہی درپیش آئے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے “ ۔ اور مجاہد نے بفاتنین کی تفسرے میں کہا کہ تم کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے مگر اس کو جس کی قسمت میں اللہ نے دوزخ لکھ دی ہے اور مجاہد نے آیت والذی قدرفہدی کی تفسیرمیں کہا کہ جس نے نیک بختی اور بدبختی سب تقدیر میں لکھ دی اور جس نے جانوروں کو ان کی چراگاہ بتائی۔
6619.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”طاعون ایک عذاب تھا اللہ جس پر چاہتا اسے نازل کرتا لیکن اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کے حق میں اسے باعث رحمت بنا دیا ہے لہذا جو شخص طاعون میں مبتلا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو جو کچھ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے اس کے علاوہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی، پھر صبر کے ساتھ ثواب کی امید میں اسی شہر میں پڑا رہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔“
تشریح:
(1) طاعون ایک پھوڑے سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن پر نکلتا ہے، اس کی وجہ سے بخار ہوتا ہے اور انسان جلدی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ طاعون جیسی تکلیف دہ بیماری دنیا میں اپنے اسباب ہی سے آتی ہے لیکن اس بیماری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے باعث رحمت بنا دیا گیا ہے جس کی چند شرائط ہیں: ٭ جب اس کے شہر میں طاعون آئے تو ڈر کر وہاں سے بھاگ نہ جائے کیونکہ ڈر کر بھاگنا اس کی پختگی اور تقدیر پر اعتماد کے خلاف ہے۔ ٭ شہر میں رہنا بھی ہو تو صابر بن کر رہے کسی کاروباری یا برادری کی مجبوری سے نہ ہو۔ ٭ وہاں رہتے ہوئے ثواب کی نیت کو شامل کر لے کیونکہ اعمال میں نیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ ٭ یہ عقیدہ رکھے کہ جو اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے نہ تو اس کے خلاف ہو سکتا ہے اور نہ اس سے فرار ہی ممکن ہے۔ اگر ان شرائط کی ادائیگی کے بعد وہاں موت آ گئی تو اسے شہید کا ثواب ملے گا۔ (2) بہرحال رضا بالقضاء کے عقیدے سے انسان کی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً: تقدیر پر ایمان لانے سے بندے پر مصائب آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، بندۂ مومن ان مصائب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر سے انسان ہمیشہ اپنی زندگی کے لیے نیک اعمال کی تمنا اور اچھے کردار کی جستجو کرتا ہے، اسی کو تقدیر کا فیصلہ قرار دیتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ ٭ تقدیر پر ایمان کے نتیجے میں بندے سے صحیح افعال صادر ہوتے ہیں اور اچھے اوصاف پیدا ہوتے ہیں، نیز وہ راہ حق میں دین کی حمایت کے لیے خطرات مول لیتا ہے اور اس پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر کے ذریعے سے انسان مایوسی اور ناامیدی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا، نیز نقصان اور پریشانی کے وقت خودکشی جیسی لعنت کو گلے نہیں لگاتا۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ انسان کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ شدہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اجروثواب کی امید رکھے۔ (فتح الباري: 627/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6384
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6619
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6619
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6619
تمہید کتاب
قدر کے لغوی معنی تقدیر، یعنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہر چیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے اور ہم اسے ایک خاص مقدار میں نازل کرتے ہیں۔'' (الحجر 15/21) نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ''اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔'' (الفرقان: 25/2) قدر کے اصطلاحی معنی قدرتِ الٰہی اور باقاعدہ طریقے سے ایک محکم فیصلے کے ساتھ چیزوں کا اندازہ مقرر کرنا ہیں۔ قدر ہی کے معنی میں لفظ قضا بھی مستعمل ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ کچھ اہل علم نے ان میں فرق کیا ہے کہ قضا ازل میں اجمالی کلی حکم کا نام ہے اور قدر اس اجمالی کلی کی جزئیات اور تفصیلی امور ہیں جو مستقبل میں واقع ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پختہ اور محکم انداز میں، منصوبہ بندی کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو ناقابل تغییر ہیں۔ارکان اسلام پانچ ہیں اور اصول ایمان چھ ہیں۔ اصول ایمان میں ایک اصل ایمان بالقدر، یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ تقدیر پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اور یقین محکم کے ساتھ مانا جائے کہ اس عالم رنگ و بو میں جو کچھ ہو رہا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے جسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو کچھ چاہے لیکن دنیا کا یہ کارخانہ اس کی مرضی کے خلاف چلے یا کائنات کا نظام کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔ اسے تسلیم کرنے سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عاجزی اور بے بسی لازم آتی ہے۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کے متعلق کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق بحث و کٹ حجتی نہ کی جائے بلکہ عقل اور اپنے ذہن کی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیا جائے بلکہ اپنے دل اور دماغ کو اس طرح مطمئن کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان کیا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث و جدال کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے قضا و قدر کے متعلق بحث کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر انتہائی خفگی اور ناراضی کا اظہار فرمایا حتی کہ آپ کا چہرۂ انور غصے سے سرخ ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں میں انار کے سرخ دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا تمہیں یہی حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہارے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں؟ خبردار! تم سے پہلی قومیں اس بنا پر تباہ ہوئیں کہ انہوں نے تقدیر کے متعلق بحث و حجت کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق ہرگز بحث و جدال نہ کیا کرو۔'' (جامع الترمذی، القدر، حدیث: 2133)اس حدیث میں امتوں کی تباہی سے مراد ان کی گمراہی ہے کیونکہ ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اس وقت آئیں جب انہوں نے تقدیر کو بحث و جدال کا موضوع بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس امت میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ ''مسئلۂ تقدیر'' سے شروع ہوا۔ ہاں، اگر کوئی تقدیر پر ایمان و یقین رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلب کے لیے تقدیر کے کسی مسئلے کے متعلق کسی اہل علم سے سوال کرتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پر تقدیر کے بعض پہلوؤں پر خود روشنی ڈالی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ہمارا دین بیان فرمائیں، گویا ہم اب پیدا ہوئے ہیں، آپ وضاحت فرمائیں کہ ہم لوگ جو عمل کرتے ہیں وہ اس لیے ہے کہ قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے اور اس کے متعلق تقدیر جاری کی گئی ہے یا اس مقصد کے لیے ہے جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اعمال اسی مقصد کے لیے ہیں جسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے۔'' حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سن کر عرض کی: ایسے حالات میں عمل کا کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا: ''تم عمل کرتے رہو! ہر انسان کو اسی کام کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔'' (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6735 (2648))تقدیر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابو مظفر بن سمعانی کے حوالے سے بہت عمدہ بات لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں: تقدیر کا باب صرف کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنے پر موقوف ہے۔ اس میں عقل و قیاس کو مطلق طور پر کوئی دخل نہیں ہے۔ جو شخص کتاب و سنت سے ہٹ کر اسے سمجھنے کی کوشش میں لگا وہ گمراہ ہو گیا اور حیرت و تعجب کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے چشمۂ شفا کو نہیں پایا اور اس چیز تک نہیں پہنچ سکے گا جس سے اس کا دل مطمئن ہو کیونکہ مسئلۂ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ علیم و خبیر کے ساتھ اسے خاص کیا ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل، نیز ان کے علوم اور تقدیر کے درمیان پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا راز اور حکمت ہے کہ اس کا علم کسی نبئ مرسل اور مقرب فرشتے کو بھی نہیں دیا گیا۔ (فتح الباری: 11/582)تقدیر کے معاملے میں بندہ نہ بالکل مجبور ہے اور نہ بالکل مختار بلکہ اسے ایک ظاہری اختیار دیا گیا ہے جسے کسب کہتے ہیں۔ اسی اختیار کے استعمال کرنے سے اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے گی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور جماعت سلف کا یہی موقف ہے۔ اس کے بعد امت میں جبریہ اور قدریہ پیدا ہوئے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ بندہ جمادات کی طرح بالکل مجبور اور بے بس ہیں۔ اسے اپنے کسی فعل کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس قدریہ کا کہنا ہے کہ بندے کے افعال میں اللہ تعالیٰ کو کچھ دخل نہیں بلکہ وہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اور جو کرتا ہے وہ مختارِ کل ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ ایک گروہ نے افراط کیا جبکہ دوسرا تفریط میں مبتلا ہوا اور اہل سنت نے ان کے درمیان درمیان موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف عقل و نقل پر قائم ہے۔ ان کے نزدیک کائنات میں جو حوادث ہوتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایک وہ حوادث ہیں جن میں بندوں کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ظاہر کرتا ہے، مثلا: بارش برسانا، کھیت اگانا، کسی کو پیدا کرنا اور اسے موت دینا، صحت و بیماری کا آنا اس قسم کے افعال میں کسی مخلوق کو کوئی دخل نہیں۔ ٭ دوسرے وہ افعال ہیں جو ایسی مخلوق سے سرزد ہوتے ہیں جو ارادہ و اور اختیار رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس قسم کے افعال کی نسبت بندوں کی طرف کی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ''تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے جبکہ کچھ آخرت کے چاہنے والے تھے۔'' (آل عمران: 3/152) اس آیت میں ارادے کی نسبت بندوں کی طرف کی گئی ہے۔اہل علم کے نزدیک تقدیر کے چار مراتب ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا مخلوق کرنے والی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم کے مطابق تمام اشیاء کی تقدیر لوح محفوظ میں لکھ دی ہے۔ ٭ کائنات میں اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ ٭ اس عالم رنگ و بو میں تمام مخلوقات اور ان کے تمام اعمال کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ تقدیر کے مندرجہ بالا چاروں مراتب پر ایمان رکھیں اور انہیں تسلیم کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقدیر کے متعلق امت کی رہنمائی کرتے ہوئے کتاب القدر کا عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے انتیس (29) مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں تین (3) معلق اور چھبیس (26) متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ ان میں بائیس (22) مکرر اور سات (7) خالص ہیں۔ بیان کردہ احادیث کو، سوائے دو (2) کے امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے پانچ (5) آثار بھی مروی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں جن کے ذریعے سے تقدیر سے متعلقہ مشکل گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم ان احادیث کے فوائد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰہمارے ہاں عام طور پر گناہ کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ ایسا کرنا تقدیر پر ایمان لانے کے بالکل منافی ہے۔ انسان دنیا بنانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے لیکن آخرت سنوارنے کے لیے بہانہ سازی سے کام لیتا ہے جبکہ نیک اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں۔ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں پیدا کیا ہے، لہذا ہمیں تقدیر پر بھروسا کر کے بدعملی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک اعمال کی طلب اور جستجو میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری نے كَتَبَ کے معنی قضیٰ کیے ہیں۔ اس تعبیر میں اشارہ ہے کہ اس دنیا میں جو حوادث، مصائب اور قحط سالی یا خوش حالی آتی ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے متعلق جو چاہتا ہے فیصلہ کر دیتا ہے اور انہیں اچھے برے حوادث سے دوچار کرتا ہے۔ یہ تمام امور اللہ تعالٰٰ کے فیصلے کے مطابق اور لوح محفوظ میں لکھے ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم
کہ ” اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں صرف وہی درپیش آئے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے “ ۔ اور مجاہد نے بفاتنین کی تفسرے میں کہا کہ تم کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے مگر اس کو جس کی قسمت میں اللہ نے دوزخ لکھ دی ہے اور مجاہد نے آیت والذی قدرفہدی کی تفسیرمیں کہا کہ جس نے نیک بختی اور بدبختی سب تقدیر میں لکھ دی اور جس نے جانوروں کو ان کی چراگاہ بتائی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”طاعون ایک عذاب تھا اللہ جس پر چاہتا اسے نازل کرتا لیکن اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کے حق میں اسے باعث رحمت بنا دیا ہے لہذا جو شخص طاعون میں مبتلا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو جو کچھ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے اس کے علاوہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی، پھر صبر کے ساتھ ثواب کی امید میں اسی شہر میں پڑا رہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) طاعون ایک پھوڑے سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن پر نکلتا ہے، اس کی وجہ سے بخار ہوتا ہے اور انسان جلدی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ طاعون جیسی تکلیف دہ بیماری دنیا میں اپنے اسباب ہی سے آتی ہے لیکن اس بیماری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے باعث رحمت بنا دیا گیا ہے جس کی چند شرائط ہیں: ٭ جب اس کے شہر میں طاعون آئے تو ڈر کر وہاں سے بھاگ نہ جائے کیونکہ ڈر کر بھاگنا اس کی پختگی اور تقدیر پر اعتماد کے خلاف ہے۔ ٭ شہر میں رہنا بھی ہو تو صابر بن کر رہے کسی کاروباری یا برادری کی مجبوری سے نہ ہو۔ ٭ وہاں رہتے ہوئے ثواب کی نیت کو شامل کر لے کیونکہ اعمال میں نیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ ٭ یہ عقیدہ رکھے کہ جو اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے نہ تو اس کے خلاف ہو سکتا ہے اور نہ اس سے فرار ہی ممکن ہے۔ اگر ان شرائط کی ادائیگی کے بعد وہاں موت آ گئی تو اسے شہید کا ثواب ملے گا۔ (2) بہرحال رضا بالقضاء کے عقیدے سے انسان کی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً: تقدیر پر ایمان لانے سے بندے پر مصائب آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، بندۂ مومن ان مصائب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر سے انسان ہمیشہ اپنی زندگی کے لیے نیک اعمال کی تمنا اور اچھے کردار کی جستجو کرتا ہے، اسی کو تقدیر کا فیصلہ قرار دیتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ ٭ تقدیر پر ایمان کے نتیجے میں بندے سے صحیح افعال صادر ہوتے ہیں اور اچھے اوصاف پیدا ہوتے ہیں، نیز وہ راہ حق میں دین کی حمایت کے لیے خطرات مول لیتا ہے اور اس پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر کے ذریعے سے انسان مایوسی اور ناامیدی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا، نیز نقصان اور پریشانی کے وقت خودکشی جیسی لعنت کو گلے نہیں لگاتا۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ انسان کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ شدہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اجروثواب کی امید رکھے۔ (فتح الباري: 627/11)
ترجمۃ الباب:
کتب کے معنیٰ ہیں: یعنی اس نے فیصلہ کیا۔ مجاہد نے کہا: (بفا تینین) کی تفسیر یہ ہے کہ تم کسی کو گمراہ نہیں کر سکتے مگر اسے جس کی قسمت میں اللہ تعالٰی نے دوزخ لکھ دی ہے۔ اور انہوں نے (قدر فھدٰی) کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: جس نے نیک بختی اور شقاوت دونوں تقدیر میں لکھ دیں اور جس نےے جانوروں کو ان کی چراگاہ بتائی۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو نضر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا اور انہیں عائشہ ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ عذاب تھا اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اسے بھیجتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا، کوئی بھی بندہ اگر کسی ایسے شہرمیں ہے جس میں طاعون کی وبا پھوٹی ہوئی ہے اور اس میں ٹھہرا ہے اور اس شہر سے بھاگا نہیں صبر کئے ہوئے ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس تک صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دی ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
حدیث حاشیہ:
طاعون ایک ورم سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن میں ظاہر ہوتا ہے اس سے بخار ہوکر آدمی جلد ہی مرجاتاہے۔ اللہ أحفظنا آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : I asked Allah's Apostle (ﷺ) about the plague. He said, "That was a means of torture which Allah used to send upon whom-so-ever He wished, but He made it a source of mercy for the believers, for anyone who is residing in a town in which this disease is present, and remains there and does not leave that town, but has patience and hopes for Allah's reward, and knows that nothing will befall him except what Allah has written for him, then he will get such reward as that of a martyr."