Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: The sin of him who does not fulfil his vow)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6695.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ جو ان کے متصل ہیں پھر جو ان کے متصل ہیں۔ حضرت عمران ؓ کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا تھا یا تین کا۔ پھر وہ لوگ آئیں گے جو نذر مانیں گے لیکن اسے پورا نہیں کریں گے، خیانت پیشہ ہوں گے، امانت کی حفاظت نہیں کریں گے اور گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ ان میں موٹاپا نمایاں طور پر ظاہر ہوگا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں امانت کی خیانت اور نذر کے پورا کرنے کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جب خیانت کرنا مذموم ہے تو نذر کو پورا نہ کرنا بھی انتہائی قابل مذمت ہے، نیز اس حدیث میں نذر کو پورا نہ کرنا بطور عیب بیان کیا گیا ہے اور جو کام جائز ہوتا ہے اسے اس انداز سے بیان نہیں کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نذر پوری نہ کرنا مستحسن امر نہیں ہے۔ (فتح الباري: 708/11) (2) واضح رہے کہ حدیث میں مذکور موٹاپے سے مراد کسبی موٹاپا ہے کیونکہ پیدائشی موٹاپا غیر اختیاری ہوتا ہے اور یہ قابل مذمت نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت کے وقت لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے، نیز وہ حلال و حرام کی پروا نہیں کریں گے اور دنیا میں جانوروں کی طرح کھائیں گے، ان کا مقصد حیات صرف کھانا پینا ہو گا، اس بنا پر ان کے جسم پر چربی کی بہتات ہو گی اور ان میں موٹاپا نمایاں طور پر ظاہر ہو گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6457
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6695
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6695
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6695
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ جو ان کے متصل ہیں پھر جو ان کے متصل ہیں۔ حضرت عمران ؓ کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا تھا یا تین کا۔ پھر وہ لوگ آئیں گے جو نذر مانیں گے لیکن اسے پورا نہیں کریں گے، خیانت پیشہ ہوں گے، امانت کی حفاظت نہیں کریں گے اور گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ ان میں موٹاپا نمایاں طور پر ظاہر ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں امانت کی خیانت اور نذر کے پورا کرنے کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جب خیانت کرنا مذموم ہے تو نذر کو پورا نہ کرنا بھی انتہائی قابل مذمت ہے، نیز اس حدیث میں نذر کو پورا نہ کرنا بطور عیب بیان کیا گیا ہے اور جو کام جائز ہوتا ہے اسے اس انداز سے بیان نہیں کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نذر پوری نہ کرنا مستحسن امر نہیں ہے۔ (فتح الباري: 708/11) (2) واضح رہے کہ حدیث میں مذکور موٹاپے سے مراد کسبی موٹاپا ہے کیونکہ پیدائشی موٹاپا غیر اختیاری ہوتا ہے اور یہ قابل مذمت نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت کے وقت لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے، نیز وہ حلال و حرام کی پروا نہیں کریں گے اور دنیا میں جانوروں کی طرح کھائیں گے، ان کا مقصد حیات صرف کھانا پینا ہو گا، اس بنا پر ان کے جسم پر چربی کی بہتات ہو گی اور ان میں موٹاپا نمایاں طور پر ظاہر ہو گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوحمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہدم بن مضرب نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمران بن حصین سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان کا جو اس کے قریب ہوں گے۔ اس کے بعد وہ جو اس سے قریب ہوں گے۔ عمران نے بیان کیا کہ مجھے یاد نہیں نبی کریم ﷺ نے اپنے زمانہ کے بعد دو کا ذکر کیا تھا یا تین کا (فرمایا کہ) پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو نذر مانے گی اور اسے پورا نہیں کرے گی، خیانت کرے گی اور ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔ وہ گواہی دینے کے لیے تیار رہیں گے جب کہ ان سے گواہی کے لیے کہا بھی نہیں جائے گا اور ان میں مٹاپا عام ہو جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zahdam bin Mudarrab (RA) : 'Imran bin Hussain said, "The Prophet (ﷺ) said, 'The best of you (people) are my generation, and the second best will be those who will follow them, and then those who will follow the second generation." Imran added, "I do not remember whether he mentioned two or three (generations) after his generation. He added, 'Then will come some people who will make vows but will not fulfill them; and they will be dishonest and will not be trustworthy, and they will give their witness without being asked to give their witness, and fatness will appear among them.' "