باب : لڑکے کی میراث اس کے باپ اور ماں کی طرف سے کیاہوگی
)
Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: Inheritance of the offspring from dead fathers and mothers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور زید بن ثابت نے کہا کہ جب کسی مرد یا عورت نے کوئی لڑکی چھوڑی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوتا ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں یا زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوی( ان کا بھائی) لڑکا بھی ہو تو پہلے وراثت کے اور شرکاءکو دیا جائے گا اور جوباقی رہے گا اس میں سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
6734.
حضرت اسود بن یزید سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمارے پاس یمن میں حضرت معاذ بن جبل ؓ معلم یا امیر کی حیثیت سے آئے ہم نے ان سے ایک ایسے شخص کے ترکے کے متعلق دریافت کیا جس کی وفات ہوئی ہو اور اس نے ایک بیٹی اور بہن چھوڑی ہو تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دیا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مذکورہ فیصلہ کیا۔ (صحیح البخاري، حدیث:6741 ) کتاب الزکاۃ میں بیان ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جب مذکورہ فیصلہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں زندہ موجود تھے۔ (فتح الباري:31/12) حضرت اسود نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیٹی اور بہن کے بارے میں فیصلہ کیا کہ بیٹی کو نصف اور باقی دیگر عصبات کو ملے گا۔ (فتح الباري:20/12) (2) اصول میراث میں بیٹی، بہن کو عصبہ کر دیتی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص بیٹی اور بہن چھوڑ کر مر جائے تو قرآنی آیت کے اعتبار سے بیٹی کو نصف اور حدیث کی رو سے باقی نصف بہن کو بطور عصبہ ملے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6495
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6734
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6734
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6734
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
تمہید باب
امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں وراثت کے معاملات میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اقوال بنیادی حیثیت رکھتے تھے جبکہ اہل عراق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں،اگرچہ فرائض (وراثت) کے مسائل میں ان حضرات کا کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول سے تین مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔جن کی بنیاد قرآنی آیات ہیں۔تفصیل حسب ذیل ہے:٭مرنے والے (مرد یا عورت) کی ایک بیٹی ہے تو اسے نصف ملتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر میت کی ایک بیٹی ہے تو اسے نصف ملے گا۔" (النساء 4: 11) ٭اگر دویادو سے زیادہ بیٹیاں ہیں تو انھیں دوتہائی ملے گا،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر وہ لڑکیاں (دویا) دو سے زیادہ ہوں تو انھیں دو تہائی ملے گا۔"(النساء 4: 11) ٭ اگر ان کے ساتھ کوئی لڑکا بھی ہے تو پہلے مقرہ حصہ پانے والوں کو دیا جائے،پھر اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق تاکیدی حکم دیتا ہے کہ مردوں کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔"(النساء 4: 11) اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک آدمی فوت ہوا،اس کی ماں،دولڑکے اور ایک لڑکی زندہ ہے تو پہلے ماں کا حصہ نکالا جائے گا جو چھٹا حصہ طے شدہ ہے۔اس کے بعد باقی پانچ حصے اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ ایک لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے،یعنی لڑکوں کو دو،دواور لڑکی کو ایک حصہ مل جائے گا، مثلاً: اگر ترکہ چھ ہزار ہے تو پہلے چھٹا حصہ ایک ہزار ماں کو دیا جائے پھر باقی ماندہ پانچ ہزار اس طرح تقسیم کیا جائے کہ دو،دو ہزار فی لڑکا اور ایک ہزار لڑکی کو دیا جائے۔اسی بات کو آئندہ حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: " مقررہ حصےان کے حق داروں کو دو،جو بچ رہے وہ میت کے زیادہ قریب مرد کے لیے ہے۔"
اور زید بن ثابت نے کہا کہ جب کسی مرد یا عورت نے کوئی لڑکی چھوڑی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوتا ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں یا زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوی( ان کا بھائی) لڑکا بھی ہو تو پہلے وراثت کے اور شرکاءکو دیا جائے گا اور جوباقی رہے گا اس میں سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسود بن یزید سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہمارے پاس یمن میں حضرت معاذ بن جبل ؓ معلم یا امیر کی حیثیت سے آئے ہم نے ان سے ایک ایسے شخص کے ترکے کے متعلق دریافت کیا جس کی وفات ہوئی ہو اور اس نے ایک بیٹی اور بہن چھوڑی ہو تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مذکورہ فیصلہ کیا۔ (صحیح البخاري، حدیث:6741 ) کتاب الزکاۃ میں بیان ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جب مذکورہ فیصلہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں زندہ موجود تھے۔ (فتح الباري:31/12) حضرت اسود نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیٹی اور بہن کے بارے میں فیصلہ کیا کہ بیٹی کو نصف اور باقی دیگر عصبات کو ملے گا۔ (فتح الباري:20/12) (2) اصول میراث میں بیٹی، بہن کو عصبہ کر دیتی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص بیٹی اور بہن چھوڑ کر مر جائے تو قرآنی آیت کے اعتبار سے بیٹی کو نصف اور حدیث کی رو سے باقی نصف بہن کو بطور عصبہ ملے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت زید بن ثابت نے فرمایا: جب کوئی مرد یا عورت ایک بیٹی چھوڑے تو اس کا نصف مال ہے اگر دو یا زیادہ بیٹیاں ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوئی بیٹا بھی ہو تو پہلے وراثت کا آغاز دوسرے شرکاء سے کیا جائے گا اور جو باقی بچے گا اس میں سے بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالنضر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ شیبان نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الشعثاء نے، ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ ہمارے یہاں یمن میں معلم و امیر بن کر تشریف لائے۔ ہم نے ان سے ایک ایسے شخص کے ترکہ کے بارے میں پوچھا جس کی وفات ہوئی ہو اور اس نے ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی ہو اور اس نے اپنی بیٹی کو آدھا اور بہن کو بھی آدھا دیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Aswad bin Yazid (RA) : Mu'adh bin Jabal came to us in Yemen as a tutor and a ruler, and we (the people of Yemen) asked him about (the distribution of the property of) a man who had died leaving a daughter and a sister. Mu'adh gave the daughter one-half of the property and gave the sister the other half.