باب : بیوی اور خاوند کو اولاد وغیرہ کے ساتھ کیا ملے گا
)
Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: The inheritance of a woman and a husband along with the offspring and other relatives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6742.
حضرت ہذیل سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو اس معاملے میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا آپ نے بیٹی کو نصف پوتی کو چھٹا حصہ اور جو باقی بچا وہ بہن کو دیا تھا۔
تشریح:
(1) قبل ازیں ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے وراثت کا ایک سوال کیا گیا کہ بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے نصف ہے۔ تم حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور وہ بھی اس مسئلے میں میری موافقت کریں گے۔ جب وہ لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انھیں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بتایا گیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6736) (2) سابقہ حدیث کے فوائد میں ہم نے وضاحت کی تھی کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بالآخر اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر عصبات اور ان کی قسمیں بیان کر دی جائیں، چنانچہ میت کے وہ قریبی رشتے دار عصبہ کہلاتے ہیں جن کے حصے متعین نہیں ہیں بلکہ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں تمام ترکے کے وارث بنتے ہیں۔ اگر کچھ نہ بچے تو محروم رہتے ہیں۔ عام طور پر خونی رشتے داروں کی تین قسمیں ہیں: ٭عصبہ بالنفس: میت کے وہ مذکر رشتہ دار کہ میت کی طرف اگر ان کی نسبت کی جائے تو درمیان میں کسی مؤنث کا واسطہ نہ آئے اور عصبہ بننے میں کسی دوسرے کے محتاج نہ ہوں۔ ان کی چار جہالت ہیں۔٭بیٹا ہونا: میت کا بیٹا، اس کی عدم موجودگی میں پوتا پھر پڑپوتا آخر تک۔ اسے جزء المیت کہا جاتا ہے۔ ٭باپ ہونا: میت کا باپ، اس کی عدم موجودگی میں دادا، پھر پڑ دادا آخر تک۔ اسے أصل المیت کہا جاتا ہے۔ ٭بھائی ہونا: میت کا بھائی، اس کی عدم موجودگی میں بھتیجا آخر تک۔ اسے جزء أب المیت کہا جاتا ہے۔ ٭ چچا ہونا: میت کا چچا اس کی عدم موجودگی میں چچا کا بیٹا آخر تک۔ اسے جزء جد المیت کہا جاتا ہے۔ ٭عصبہ بالغیر، ہر وہ مؤنث جو مقررہ حصہ لیتی ہو اور اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ بنے۔ یہ قسم عصبہ بننے میں کسی دوسرے کی محتاج ہوتی ہے اور وہ دوسرا بھی عصبہ ہوتا ہے۔ یہ چار فرد ہیں: بیٹی، پوتی، حقیقی بہن اور پدری بہن۔ ان میں ترکہ اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ مذکر مؤنث سے دوگنا دیا جائے۔٭عصبہ مع الغیر: ہر وہ مؤنث جو کسی دوسری مقررہ حصہ لینے والی مؤنث کی وجہ سے عصبہ بنے۔ اس صورت میں مقررہ حصہ لینے والی عصبہ نہیں بنے گی بلکہ دوسری مؤنث کو عصبہ بنائے گی۔ اس قسم میں صرف حقیقی بہن اور پدری بہن آتی ہے جس وقت اس کے ساتھ میت کی بیٹی یا پوتی ہو۔ (3) واضح رہے کہ وراثت میں اس عصبہ کو مقدم کیا جاتا ہے جو درجے میں میت کے زیادہ قریب ہو، مثلاً: بیٹا، پوتے سے زیادہ حق دار ہوگا، اسی طرح قوی قرابت دار، ضعیف سے مقدم ہوگا، مثلاً: حقیقی بھائی، پدری بھائی سے مقدم ہوگا۔ (4) بیٹا، پوتا،حقیقی بھائی اور پدری بھائی،اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں جبکہ چچا، اس کا بیٹا،حقیقی بھائی کا بیٹا اور پدری بھائی کا بیٹا اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناتے ہیں۔ واللہ أعلم.(5) جب حقیقی بہن، بیٹی کی موجودگی میں عصبہ بن جائے تو وہ حقیقی بھائی کی سی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، یعنی جو رشتے دار حقیقی بھائی کی وجہ سے محروم ہوتے ہیں وہ حقیقی بہن کے عصبہ بننے سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ (6)ایک مشہور اشکال کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اس اشکال کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں ایک بیٹی، ایک بہن اور ایک سویتلا، یعنی پدری بھائی ہے، بیٹی کو تمام ترکے سے نصف دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کسے ملے گا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت ہے کہ مقررہ حق لینے والوں کو ان کا حق دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتے دار کے لیے ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:6732) اس روایت کا تقاضا ہے کہ باقی ترکہ پدری بھائی کو ملنا چاہیے اور بہن محروم ہے اور مذکورہ عنوان کہ بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنایا جائے، اس کا تقاضا ہے کہ باقی ماندہ ترکے کی حق دار حقیقی بہن ہے، سویتلا بھائی محروم ہے۔ اس صورت میں کس کو ترجیح دی جائے اور کیوں؟ فتاویٰ ثنائیہ میں مذاکرۂ علمیہ کے عنوان سے اس اشکال اور اس کے حل کو پیش کیا گیا ہے جو صفحہ 510 تا 518 جلد:2 میں ہے ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کا مفہوم علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس میں لفظ "ذكر اوليٰ'' کی صفت ہے رجل کی نہیں۔ اوليٰ کے معنی قریب کے ہیں، اس بنا پر حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ باقی ماندہ ترکہ میت کے اس مذکر قریبی رشتے دار کا ہے جو صلب (باپ) کی طرف سے ہو، نہ اس کے لیے جو بطن (ماں) کی جانب سے ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ میراث کی نفی اس قریبی رشتے دار سے کی گئی ہے جو ماں کی طرف سے ہے، مثلاً: ماموں وغیرہ اور لفظ ذکر سے میراث کی نفی عورت سے ہے اگر چہ وہ میت کی جانب باعتبار صلب کے منسوب ہو، جیسے: پھوپھی وغیرہ۔ علامہ طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ مذکورہ صورت میں بہن کو محروم کرتے ہیں وہ قرآن مجید کی اس آیت سے دلیل لیتے ہیں : ’’اگر کوئی شخص بے اولاد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہی ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا۔‘‘ (النساء 4: 176) ان کا کہنا ہے کہ بیٹی (اولاد) کی موجودگی میں بہن کو نصف دینا بظاہر قرآن کے خلاف لگتا ہے، نیز حدیث میں ہے کہ بیٹی کو حصہ دینے کے بعد باقی قریبی مذکر رشتے دار کا ہے، اس لیے بہن مذکر رشتے دار نہیں کہ اسے بیٹی سے بچاہوا دیا جائے۔ علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ میت نے اگر بیٹی اور سویتلا بھائی چھوڑا ہو تو اس امر پر اجماع ہے کہ بیٹی کو نصف اور باقی نصف سوتیلے بھائی کو لے گا، حالانکہ یہ بھی بظاہر قرآن کے خلاف ہے، تاہم آیت ولد سے مراد وہ ولد ہے جو کل ترکے کا وارث ہو، وہ ولد مراد نہیں جو کل کا نہیں بلکہ کچھ حصے کا مالک ہے، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے کیونکہ اگر کسی نے بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑی ہو تو بالاتفاق نصف بیٹی کو اور باقی پوتے اور پوتی میں تقسیم ہوگا، پوتے کے مذکر ہونے کی وجہ سے بقیہ ترکہ تمام کا تمام اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ اس کی بہن کو بھی وارث بنایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اپنے عموم پر نہیں بلکہ کسی خاص صورت سے متعلق ہے،وہ یہ ہے کہ اگر کوئی بیٹی، چچا اور پھوپھی چھوڑے تو اس صورت میں بیٹی کو نصف دینے کے بعد بقیہ صرف چچا کو دیا جائے گا، پھوپھی اس میں شریک نہ ہوگی۔ (فتح الباري:20/12) بہر حال ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں سے بچا ہوا مال عصبہ کو ملتا ہے اور عصبہ کی تین قسمیں ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ بسا اوقات کئی ایک عصبات ایک صورت میں جمع ہو جاتے ہیں، مثلاً: ٭عصبہ بنفسہ: عصبہ بالغیر اور عصبہ مع وغیرہ جمع ہو جائیں، جیسے ماں، بیٹا، بیٹی اور بہن تو اس صورت میں ماں کا حصہ نکالنے کے بعد باقی بیٹا اور بیٹی تقسیم کریں گے بہن محروم ہوگی۔ ٭عصبہ بنفسہ قریب اور عصبہ بنفسہ بعید جمع ہو جائیں تو جو رشتہ دار میت کے زیادہ قریب ہوگا وہ باقی ماندہ ترکے کا حق دار ہوگا، جیسے ماں، بیٹا اور بھائی، تو اس صورت میں ماں کا حصہ نکالنے کے بعد بیٹا وارث ہوگا کیونکہ وہ عصبہ بنفسہ قریب ہے اور بھائی محروم ہوگا کیونکہ بنفسہ بعید ہے۔ ٭عصبہ بنفسہ بعید اور عصبہ مع الغیر جمع ہو جائیں تو بھی اقرب کا لحاظ رکھا جائے گا، جیسے: بیٹی، بہن اور سویتلا پدری بھائی تو بیٹی کو مقررہ حصہ دینے کے بعد باقی بہن کو دیا جائے گا کیونکہ وہ سویتلے بھائی کی بنسبت میت کے زیادہ قریب ہے۔ گویا پہلی دو صورتوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث پر عمل ہوگا اور آخری صورت میں بہن کو عصبہ بنانے پر عمل ہوگا۔ (8) بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق اگر بیٹی کے ساتھ بہن نہ ہو تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر عمل کیا جائے گا اور اگر بیٹی کے ساتھ بہن ہو تو عصبۂ قوی کے پیش نظر بقیہ ترکہ اسے دیا جائے گا، نیز علمائے فرائض کا قاعدہ ہے کہ جب بہن عصبہ مع الغیر بن جائے تو اسے حقیقی بھائی کی پوزیشن حاصل ہو جاتی ہے، جیسے: حقیقی بھائی کی موجودگی میں سویتلا بھائی محروم ہوتا ہے، اسی طرح بہن کے عصبہ مع الغیر ہونے کی صورت میں سویتلا بھائی محروم ہوگا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6503
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6742
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6742
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6742
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
حضرت ہذیل سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو اس معاملے میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا آپ نے بیٹی کو نصف پوتی کو چھٹا حصہ اور جو باقی بچا وہ بہن کو دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) قبل ازیں ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے وراثت کا ایک سوال کیا گیا کہ بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے نصف ہے۔ تم حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور وہ بھی اس مسئلے میں میری موافقت کریں گے۔ جب وہ لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انھیں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بتایا گیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث:6736) (2) سابقہ حدیث کے فوائد میں ہم نے وضاحت کی تھی کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بالآخر اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر عصبات اور ان کی قسمیں بیان کر دی جائیں، چنانچہ میت کے وہ قریبی رشتے دار عصبہ کہلاتے ہیں جن کے حصے متعین نہیں ہیں بلکہ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں تمام ترکے کے وارث بنتے ہیں۔ اگر کچھ نہ بچے تو محروم رہتے ہیں۔ عام طور پر خونی رشتے داروں کی تین قسمیں ہیں: ٭عصبہ بالنفس: میت کے وہ مذکر رشتہ دار کہ میت کی طرف اگر ان کی نسبت کی جائے تو درمیان میں کسی مؤنث کا واسطہ نہ آئے اور عصبہ بننے میں کسی دوسرے کے محتاج نہ ہوں۔ ان کی چار جہالت ہیں۔٭بیٹا ہونا: میت کا بیٹا، اس کی عدم موجودگی میں پوتا پھر پڑپوتا آخر تک۔ اسے جزء المیت کہا جاتا ہے۔ ٭باپ ہونا: میت کا باپ، اس کی عدم موجودگی میں دادا، پھر پڑ دادا آخر تک۔ اسے أصل المیت کہا جاتا ہے۔ ٭بھائی ہونا: میت کا بھائی، اس کی عدم موجودگی میں بھتیجا آخر تک۔ اسے جزء أب المیت کہا جاتا ہے۔ ٭ چچا ہونا: میت کا چچا اس کی عدم موجودگی میں چچا کا بیٹا آخر تک۔ اسے جزء جد المیت کہا جاتا ہے۔ ٭عصبہ بالغیر، ہر وہ مؤنث جو مقررہ حصہ لیتی ہو اور اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ بنے۔ یہ قسم عصبہ بننے میں کسی دوسرے کی محتاج ہوتی ہے اور وہ دوسرا بھی عصبہ ہوتا ہے۔ یہ چار فرد ہیں: بیٹی، پوتی، حقیقی بہن اور پدری بہن۔ ان میں ترکہ اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ مذکر مؤنث سے دوگنا دیا جائے۔٭عصبہ مع الغیر: ہر وہ مؤنث جو کسی دوسری مقررہ حصہ لینے والی مؤنث کی وجہ سے عصبہ بنے۔ اس صورت میں مقررہ حصہ لینے والی عصبہ نہیں بنے گی بلکہ دوسری مؤنث کو عصبہ بنائے گی۔ اس قسم میں صرف حقیقی بہن اور پدری بہن آتی ہے جس وقت اس کے ساتھ میت کی بیٹی یا پوتی ہو۔ (3) واضح رہے کہ وراثت میں اس عصبہ کو مقدم کیا جاتا ہے جو درجے میں میت کے زیادہ قریب ہو، مثلاً: بیٹا، پوتے سے زیادہ حق دار ہوگا، اسی طرح قوی قرابت دار، ضعیف سے مقدم ہوگا، مثلاً: حقیقی بھائی، پدری بھائی سے مقدم ہوگا۔ (4) بیٹا، پوتا،حقیقی بھائی اور پدری بھائی،اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں جبکہ چچا، اس کا بیٹا،حقیقی بھائی کا بیٹا اور پدری بھائی کا بیٹا اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناتے ہیں۔ واللہ أعلم.(5) جب حقیقی بہن، بیٹی کی موجودگی میں عصبہ بن جائے تو وہ حقیقی بھائی کی سی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، یعنی جو رشتے دار حقیقی بھائی کی وجہ سے محروم ہوتے ہیں وہ حقیقی بہن کے عصبہ بننے سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ (6)ایک مشہور اشکال کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اس اشکال کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں ایک بیٹی، ایک بہن اور ایک سویتلا، یعنی پدری بھائی ہے، بیٹی کو تمام ترکے سے نصف دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کسے ملے گا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت ہے کہ مقررہ حق لینے والوں کو ان کا حق دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتے دار کے لیے ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:6732) اس روایت کا تقاضا ہے کہ باقی ترکہ پدری بھائی کو ملنا چاہیے اور بہن محروم ہے اور مذکورہ عنوان کہ بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنایا جائے، اس کا تقاضا ہے کہ باقی ماندہ ترکے کی حق دار حقیقی بہن ہے، سویتلا بھائی محروم ہے۔ اس صورت میں کس کو ترجیح دی جائے اور کیوں؟ فتاویٰ ثنائیہ میں مذاکرۂ علمیہ کے عنوان سے اس اشکال اور اس کے حل کو پیش کیا گیا ہے جو صفحہ 510 تا 518 جلد:2 میں ہے ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کا مفہوم علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اس میں لفظ "ذكر اوليٰ'' کی صفت ہے رجل کی نہیں۔ اوليٰ کے معنی قریب کے ہیں، اس بنا پر حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ باقی ماندہ ترکہ میت کے اس مذکر قریبی رشتے دار کا ہے جو صلب (باپ) کی طرف سے ہو، نہ اس کے لیے جو بطن (ماں) کی جانب سے ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ میراث کی نفی اس قریبی رشتے دار سے کی گئی ہے جو ماں کی طرف سے ہے، مثلاً: ماموں وغیرہ اور لفظ ذکر سے میراث کی نفی عورت سے ہے اگر چہ وہ میت کی جانب باعتبار صلب کے منسوب ہو، جیسے: پھوپھی وغیرہ۔ علامہ طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ مذکورہ صورت میں بہن کو محروم کرتے ہیں وہ قرآن مجید کی اس آیت سے دلیل لیتے ہیں : ’’اگر کوئی شخص بے اولاد مرجائے اور اس کی ایک بہن ہی ہو تو اسے ترکے کا نصف ملے گا۔‘‘ (النساء 4: 176) ان کا کہنا ہے کہ بیٹی (اولاد) کی موجودگی میں بہن کو نصف دینا بظاہر قرآن کے خلاف لگتا ہے، نیز حدیث میں ہے کہ بیٹی کو حصہ دینے کے بعد باقی قریبی مذکر رشتے دار کا ہے، اس لیے بہن مذکر رشتے دار نہیں کہ اسے بیٹی سے بچاہوا دیا جائے۔ علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ میت نے اگر بیٹی اور سویتلا بھائی چھوڑا ہو تو اس امر پر اجماع ہے کہ بیٹی کو نصف اور باقی نصف سوتیلے بھائی کو لے گا، حالانکہ یہ بھی بظاہر قرآن کے خلاف ہے، تاہم آیت ولد سے مراد وہ ولد ہے جو کل ترکے کا وارث ہو، وہ ولد مراد نہیں جو کل کا نہیں بلکہ کچھ حصے کا مالک ہے، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے کیونکہ اگر کسی نے بیٹی، پوتا اور پوتی چھوڑی ہو تو بالاتفاق نصف بیٹی کو اور باقی پوتے اور پوتی میں تقسیم ہوگا، پوتے کے مذکر ہونے کی وجہ سے بقیہ ترکہ تمام کا تمام اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ اس کی بہن کو بھی وارث بنایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اپنے عموم پر نہیں بلکہ کسی خاص صورت سے متعلق ہے،وہ یہ ہے کہ اگر کوئی بیٹی، چچا اور پھوپھی چھوڑے تو اس صورت میں بیٹی کو نصف دینے کے بعد بقیہ صرف چچا کو دیا جائے گا، پھوپھی اس میں شریک نہ ہوگی۔ (فتح الباري:20/12) بہر حال ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں سے بچا ہوا مال عصبہ کو ملتا ہے اور عصبہ کی تین قسمیں ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ بسا اوقات کئی ایک عصبات ایک صورت میں جمع ہو جاتے ہیں، مثلاً: ٭عصبہ بنفسہ: عصبہ بالغیر اور عصبہ مع وغیرہ جمع ہو جائیں، جیسے ماں، بیٹا، بیٹی اور بہن تو اس صورت میں ماں کا حصہ نکالنے کے بعد باقی بیٹا اور بیٹی تقسیم کریں گے بہن محروم ہوگی۔ ٭عصبہ بنفسہ قریب اور عصبہ بنفسہ بعید جمع ہو جائیں تو جو رشتہ دار میت کے زیادہ قریب ہوگا وہ باقی ماندہ ترکے کا حق دار ہوگا، جیسے ماں، بیٹا اور بھائی، تو اس صورت میں ماں کا حصہ نکالنے کے بعد بیٹا وارث ہوگا کیونکہ وہ عصبہ بنفسہ قریب ہے اور بھائی محروم ہوگا کیونکہ بنفسہ بعید ہے۔ ٭عصبہ بنفسہ بعید اور عصبہ مع الغیر جمع ہو جائیں تو بھی اقرب کا لحاظ رکھا جائے گا، جیسے: بیٹی، بہن اور سویتلا پدری بھائی تو بیٹی کو مقررہ حصہ دینے کے بعد باقی بہن کو دیا جائے گا کیونکہ وہ سویتلے بھائی کی بنسبت میت کے زیادہ قریب ہے۔ گویا پہلی دو صورتوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث پر عمل ہوگا اور آخری صورت میں بہن کو عصبہ بنانے پر عمل ہوگا۔ (8) بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق اگر بیٹی کے ساتھ بہن نہ ہو تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر عمل کیا جائے گا اور اگر بیٹی کے ساتھ بہن ہو تو عصبۂ قوی کے پیش نظر بقیہ ترکہ اسے دیا جائے گا، نیز علمائے فرائض کا قاعدہ ہے کہ جب بہن عصبہ مع الغیر بن جائے تو اسے حقیقی بھائی کی پوزیشن حاصل ہو جاتی ہے، جیسے: حقیقی بھائی کی موجودگی میں سویتلا بھائی محروم ہوتا ہے، اسی طرح بہن کے عصبہ مع الغیر ہونے کی صورت میں سویتلا بھائی محروم ہوگا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوقیس (عبدالرحمن بن عزوان) نے، ان سے ہزیل بن شرحبیل نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے فیصلہ کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا۔ لڑکی کو آدھا، پوتی کو چھٹا اور جو باقی بچے بہن کا حصہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Huzail (RA) : 'Abdullah said, "The judgment I will give in this matter will be like the judgment of the Prophet, i.e. one-half is for the daughter and one-sixth for the son's daughter and the rest of the inheritance for the sister."