صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
46. باب: کوئی شخص صرف یہ بتلانے کے لیے کہ نبی کریمﷺنماز کیوں کر پڑھا کرتے تھے اور آپ کا طریقہ کیا تھا نماز پڑھائے تو کیسا ہے؟
Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
46. Chapter: Offering Salat (prayer) in front of the people with the sole intention of teaching them the Salat of the Prophet (pbuh) and his Sunnah (legal ways etc.)
باب: کوئی شخص صرف یہ بتلانے کے لیے کہ نبی کریمﷺنماز کیوں کر پڑھا کرتے تھے اور آپ کا طریقہ کیا تھا نماز پڑھائے تو کیسا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Offering Salat (prayer) in front of the people with the sole intention of teaching them the Salat of the Prophet (pbuh) and his Sunnah (legal ways etc.))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
677.
حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس مسجد میں ایک دفعہ حضرت مالک بن حویرث ؓ تشریف لائے اور فرمانے لگے: میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں، حالانکہ میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں وہ طریقہ بتاؤں جس طریقے سے نبی ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ (راوی حدیث ایوب نے کہا:) میں نے ابوقلابہ سے سوال کیا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ ابوقلابہ نے جواب دیا: ہمارے اس بزرگ (عمرو بن سلمہ) کی طرح۔ ہمارے وہ بزرگ جب پہلی رکعت میں سجدے سے سر اٹھاتے تو کھڑے ہونے سے پہلے ذرا بیٹھ جایا کرتے تھے۔
تشریح:
اگر لوگوں کو مسنون طریقہ سکھانے کے لیے ان کے سامنے نماز پڑھی جائے تو وہ غیراللہ کے لیے نہیں ہوگی اور نہ اسے ریاکاری کہا جا سکتا ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔ اسی طرح حضرت مالک بن حویرث ؓ نے فرمایا کہ میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں، اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ وہ ثواب کی نیت سے نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ وہ تو انھیں اس وقت نماز پڑھنے کا سبب بتلا رہے تھے کہ میں تعلیم کی نیت سے نماز پڑھ کر تمھیں دکھا رہا ہوں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:824) (2) حضرت مالک بن حویرث ؓ یہ سمجھتے تھے کہ قول کی نسبت عمل سے تعلیم دینا زیادہ مناسب اور فائدہ مند ہے، چنانچہ ایسا کرنا "شرك في العبادة" نہیں بلکہ شریعت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ (فتح الباري:212/2) مذید برآں اس حدیث سے جلسۂ استراحت کا بھی ثبوت ملتا ہے اور اس سے مراد پہلی اور تیسری رکعت کے سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہونے سے پہلے ذرا سا بیٹھنا ہے۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ إن شاءالله
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
668
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
677
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
677
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
677
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
عبادات میں ریاکاری منع ہے لیکن تعلیم دین کے لیے دکھلاوا منع نہیں،چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان سے یہ ثابت کرنا چاہتے کہ اگر تعلیم دینے کے لیے لوگوں کے سامنے نماز پڑھے تو ریاکاری میں داخل نہیں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے۔اس مقام پر ریاکاری دین کے لیے ہے اور ایسا کرنا جائز ہے۔
حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس مسجد میں ایک دفعہ حضرت مالک بن حویرث ؓ تشریف لائے اور فرمانے لگے: میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں، حالانکہ میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں وہ طریقہ بتاؤں جس طریقے سے نبی ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ (راوی حدیث ایوب نے کہا:) میں نے ابوقلابہ سے سوال کیا: انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ ابوقلابہ نے جواب دیا: ہمارے اس بزرگ (عمرو بن سلمہ) کی طرح۔ ہمارے وہ بزرگ جب پہلی رکعت میں سجدے سے سر اٹھاتے تو کھڑے ہونے سے پہلے ذرا بیٹھ جایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اگر لوگوں کو مسنون طریقہ سکھانے کے لیے ان کے سامنے نماز پڑھی جائے تو وہ غیراللہ کے لیے نہیں ہوگی اور نہ اسے ریاکاری کہا جا سکتا ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔ اسی طرح حضرت مالک بن حویرث ؓ نے فرمایا کہ میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں، اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ وہ ثواب کی نیت سے نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ وہ تو انھیں اس وقت نماز پڑھنے کا سبب بتلا رہے تھے کہ میں تعلیم کی نیت سے نماز پڑھ کر تمھیں دکھا رہا ہوں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:824) (2) حضرت مالک بن حویرث ؓ یہ سمجھتے تھے کہ قول کی نسبت عمل سے تعلیم دینا زیادہ مناسب اور فائدہ مند ہے، چنانچہ ایسا کرنا "شرك في العبادة" نہیں بلکہ شریعت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ (فتح الباري:212/2) مذید برآں اس حدیث سے جلسۂ استراحت کا بھی ثبوت ملتا ہے اور اس سے مراد پہلی اور تیسری رکعت کے سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہونے سے پہلے ذرا سا بیٹھنا ہے۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ إن شاءالله
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مالک بن حویرث (صحابی) ایک دفعہ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھاؤں گا اور میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں نماز کا وہ طریقہ سکھا دوں جس طریقہ سے نبی کریم ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا کہ انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ ہمارے شیخ (عمر بن سلمہ) کی طرح۔ شیخ جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو ذرا بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنا یہ جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اسی کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔ قال الحافظ في الفتح و فیه مشروعیة جلسة الاستراحة و أخذ بها الشافعي و طائفة من أهل الحدیثیعنی فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوئی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے۔ مگر احناف نے جلسہ استراحت کا انکار کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے: ’’ یہ جلسہ استراحت ہے اور حنفیہ کے یہاں بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ ابتدا میں یہی طریقہ تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ‘‘ (تفہیم البخاری، ص: 81) آگے یہی حضرت اپنے اس خیال کی خود ہی تردید فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ ’’یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس میں اختلاف صرف افضلیت کی حد تک ہے۔‘‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اسے درجہ جواز میں مانتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے۔ صرف مولانا عبدالحئی صاحب حنفی لکھنؤی کا تبصرہ نقل کردیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں: ''اعْلَمْ أَنَّ أَكْثَرَ أَصْحَابِنَا الْحَنَفِيَّةِ وَكَثِيرًا مِنَ الْمَشَايِخِ الصُّوفِيَّةِ قَدْ ذَكَرُوا فِي كَيْفِيَّةِ صَلَاةِ التَّسْبِيحِ الْكَيْفِيَّةَ الَّتِي حَكَاهَا التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاكِمُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْخَالِيَةَ عَنْ جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَالشَّافِعِيَّةُ وَالْمُحَدِّثُونَ أَكْثَرُهُمُ اخْتَارُوا الْكَيْفِيَّةَ الْمُشْتَمِلَةَ عَلَى جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَقَدْ عُلِمَ مِمَّا أَسْلَفْنَا أَنَّ الْأَصَحَّ ثُبُوتًا هُوَ هَذِهِ الْكَيْفِيَّةُ فَلْيَأْخُذْ بِهَا مَنْ يُصَلِّيهَا حَنَفِيًّا كَانَ أَوْ شَافِعِيًّا۔''(تحفة الأحوذي، ص:237 بحوالہ کتاب الآثار المرفوعة)یعنی جان لو کہ ہمارے اکثر علمائے احناف اور مشائخ صوفیہ نے صلوٰۃ التسبیح کا ذکر کیا ہے۔ جسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے مگر اس میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ شافعیہ اور اکثر محدثین نے جلسہ استراحت کو مختار قرار دیا ہے اور ہمارے بیان گذشتہ سے ظاہر ہے کہ ثبوت کے لحاظ سے صحیح یہی ہے کہ جلسہ استراحت کرنا بہتر ہے پس کوئی حنفی ہو یا شافعی اسے چاہئے کہ جب بھی وہ صلوٰۃ التسبیح پڑھے ضرور جلسہ استراحت کرے۔ محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں۔ قد اعتذر الحنفیة وغیرهم من لم یقل بجلسة الاستراحة عن العمل بحدیث مالك بن الحویرث المذکور في الباب بأعذار کلها باردة(تحفة الأحوذي)یعنی جو حضرات جلسہ استراحت کے قائل نہیں احناف وغیرہ انہوں نے حدیث مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ جو یہاں ترمذی میں مذکور ہوئی ہے ( اور بخاری شریف میں بھی قارئین کے سامنے ہے ) پر عمل کرنے سے کئی ایک عذر پیش کئے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہے اور جن کو عذر بے جاہی کہنا چاہئے۔ (مزید تفصیل کے لیے تحفة الأحوذي کا مطالعہ کرنا چاہئے۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aiyub (RA): Abu Qilaba said, "Malik bin Huwairith came to this Mosque of ours and said, 'I pray in front of you and my aim is not to lead the prayer but to show you the way in which the Prophet (ﷺ) used to pray.' “I asked Abu Qilaba,"How did he use to pray?' “He replied, "(The Prophet (ﷺ) used to pray) like this Sheikh of ours and the Sheikh used to sit for a while after the prostration, before getting up after the first Rak'a.”