Sahi-Bukhari:
Limits and Punishments set by Allah (Hudood)
(Chapter: Beating with stalks of date-palm leaves and shoes)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6778.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: میں کسی پر حد قائم نہیں کرتا جس سے مر جائے، پھر مجھے اس کا رنج ہو سوائے شرابی کے۔ اگر وہ حد قائم کرنے سے مر جائے تو اس کی دیت ادا کروں گا۔ یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔
تشریح:
(1) چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر نہیں کی، اس لیے اگر کسی شرابی کی کوڑے کھاتے کھاتے موت واقع ہو جائے یا چالیس سے زیادہ کوڑے کھانے سے وہ مر جائے تو اس سورت میں اس کی دیت دی جائے گی اور یہ دیت حاکم وقت کے عاقلہ (عصبہ رشتے داروں) پر ہوگی۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوڑوں کہ علاوہ جوتوں اور چھڑیوں سے موت واقع ہو جائے تو اس صورت میں دیت نہیں دی جائے گی۔ (فتح الباري:83/12) (1) ہمارے ہاں کوڑے کے لیے خاص طور پر بید تیار کیا جاتا ہے، اسے مارنے کے لیے ایک خاص آدمی ہوتا ہے جو مارنے کی مشق کرتا رہتا ہے، بید کو بھگو بھگو کر مارا جاتا ہے تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیا جائے، مجرم کو ننگا کر کے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ جب جلاد مارنے کے لیے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے اس کے سرین پر مارتا ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ بن کر اڑتا چلا جاتا ہے۔ بسا اوقات تو ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اس طرح کی ’’مہذب‘‘ سزائیں دینے والے حضرات اسلام کی سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں۔ اس پر ہم تعجب ہی کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ عطا کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6539
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6778
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6778
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6778
تمہید کتاب
دنیا میں مال ودولت کی فروانی مفاسد وخرابیاں پیدا کرنے کا باعث ہے،اسی طرح بعض اوقات دنیا کے سازو سامان سے محرومی بھی امن وسکون تباہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔تقسیم ترکہ کے وقت یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔کچھ رشتے داروں کو مفت میں دولت مل جاتی ہے تو کچھ تعلق دار اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ سخت ترین ملامت اور تکلیف دہ سزا کا مقرر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔شریعت میں ایسی سزاؤں کو حدودوتعزیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔غالباً امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الفرائض کے بعد کتاب الحدود کو اسی مقصد کے پیش نظر بیان کیا ہے۔حدود، حد کی جمع ہے۔لغوی اعتبار سے اس کے معنی رکاوٹ ہیں۔چوکیدار کو حداد اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اندر داخل ہونے سے منع کرتا ہے اور ان کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔شریعت کی نظر میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو۔اس سے تعزیر غیر مقرر سزا ور قصاص وغیرہ خارج ہے۔ چونکہ حد کی مختلف قسمیں ہیں،جیسے، حدزنا، ، حد قذف اور حد شراب نوشی وغیرہ،اس لیے قسموں کے اعتبار سے حد کی جمع حدودآئی ہے۔بعض اوقات حدود سے گناہ بھی مراد لیے جاتے ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یہ معاصی اور گناہ اللہ کی حدیں ہیں تم ان قریب نہ جاؤ۔"(البقرۃ 2: 87) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حدودوتعزیرات کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:معلوم ہونا چاہیے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حد جاری فرمائی ہے اوراس قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں مختلف قسم کے مفاسد موجود ہیں۔ان گناہوں کے کرنے سے زمین میں فساد پھیل جاتا ہے اور اہل زمین کا امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے اور ایسے گناہوں کی خواہش انسانی نفوس میں ہمیشہ جذباتی کیفیت پیدا کردیتی ہے جس کی روک تھا سے لوگ قاصر ہوجاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے نقصانات ہوجاتے ہیں کہ اکثر اوقات خود مظلوم شخص بھی ان کی مدافعت نہیں کرپاتا،پھر عام لوگوں میں یہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس قسم کے گناہوں کو روکنے کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ملامت کا پہلو بھی ہوتا ہے،تاکہ یہ عقوبت وسزا اور خطرۂ لعن طعن سامنے رہے اور لوگ اس قسم کے گناہ کرنے سے ڈرتے رہیں۔شریعت میں سزائیں مقرر کرنے کی یہی وجہ ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)واضح رہے کہ انسان دو طریقوں سے جرائم سے بچ سکتا ہے،چنانچہ وہ انسان جس میں حیوانیت کا غلبہ ہے اسے سخت قسم کی عقوبت اور سنگین سزا ہی جرم کرنے سے باز رکھ سکتی ہے جیسا کہ حیوانات کو سخت جسمانی سزا ہی سرکشی سے باز رکھتی ہے،اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر حیوانیت کے بجائے جاہ وجلال کی محبت غالب ہوتی ہے،اس قسم کے لوگوں کو سخت قسم کی عار اور غیرت جرم کرنے سے روکتی ہے۔ ایسے شخص کے حق میں جسمانی تکلیف کے مقابلے میں عاروغیرت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود میں یہ دونوں طریقے سمو دیے گئے ہیں۔بہر حال جرائم کی روک تھام کے لیے حدود اللہ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔احادیث میں انھیں قائم کرنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک حد جس کے مطابق زمین میں عمل کیا جاتا ہے وہ اہل زمین کے لیے چالیس دنوں کی بارش سے بہتر ہے۔"(سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2538) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " اللہ کی حدود میں سے ایک حد قائم کردینا اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2537) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت زنا کاری،شراب نوشی اور چوری وغیرہ کی حدیں بیان کی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے حد کو سترہ گناہوں پر واجب مانا ہے۔ان میں سے مرتد ہونا، ڈاکا مارنا، زنا کرنا،تہمت لگانا،شراب پینا اور چوری کرنا۔ان پر حد قائم کرنے کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اور کچھ جرائم پر حد قائم کرنے میں اختلاف ہے،مثلاً: مانگی ہوئی چیز کا انکار کرنا،شراب کے علاوہ اور کوئی نشہ اور چیز استعمال کرنام،زنا کے علاوہ کسی چیز کی تہمت لگانا یا لواطت اگرچہ اپنی بیوی سے ہو،حیوانات سے جنسی خواہش پوری کرنا،عورتوں کا باہمی بدکاری کرنا، عورت کا کسی جانور سے خواہش پوری کرنا، جادو کرنا، سستی کہ وجہ سے نماز ترک کرنا اور شرعی عذر کے بغیر انسان کا روزہ توڑ دینا وغیرہ۔(فتح الباری:12/71)جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گی بصورت دیگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو اسے سزا دے کر اس کی تلافی کردے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے"الحدود كفارة“ کے عنوان میں اس امر کو بیان کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: "حدود شرعیہ سے گناہوں کے کفار کی دوجہتیں ہیں کیونکہ اس کا مرتکب یا تو ایسا شخص ہے جو امر الٰہی کا پابند اور حکم الٰہی کی اطاعت کرنے والا ہوگا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہوگا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کی حد کفارہ بن جاتی ہے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اسے تکلیف وایذا پہنچائی جائے،اس طرح اسے گناہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔یہی باز رہنا اس کا کفارہ ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ، بحث حدود)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں مختلف مسائل واحکام کے استنباط کے لیے ایک سوتین (103)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اناسی(79) موصول اور چوبیس(24) کے قریب معلق اور متابعات ہیں،نیز باسٹھ(62) مکرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔آپ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین سے بیس(20)آثار بھی پیش کیے ہیں۔ان تمام مرفوع روایات اور آثار پر چھیالیس (46)چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں۔چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں:شراب نوشی کی سنگینی، شرابی کو مارنا، شراب کا رسیا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا،غیر معین چور کو لعنت کرنا،حدود کفارہ ہیں،اللہ کی خاطر حدود قائم کرنا،امیرو غریب پر حد قائم کرنا،حدود کے متعلق سفارش کی حیثیت، چور کی توبہ،فحش کاری ترک کرنے کی فضیلت ، زنا کاروں کا گناہ، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، دیوانے مردوعورت کورجم نہ کیا جائے، غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے مارے جائیں،جرائم پیشہ لوگوں اور ہیجڑوں کو جلا وطن کرنا،تعزیرو تادیب کی سزا،پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،غلام پر تہمت لگانا،حاکم کی غیر موجودگی میں حدلگانا۔بہرحال اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصلاح معاشرہ سے ہے۔ہماری گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الحدود کا مطالعہ کریں اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمیں یا رب العالمین.
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ شراب پینے کے متعلق دو حدیثوں کے درمیان بظاہر تعارض کو دور کیا جائے،چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی پر لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ وہ شراب پینے وقت مومن نہیں ہوتا۔تعارض اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ ایمان کی نفی سے مراد کمال ایمان کی نفی ہے،یہ مراد نہیں کہ وہ ایمان سے خالی ہوجاتا ہے۔جب شرابی ملت اسلامیہ سے جب شرابی ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہے تو وہ لعنت کا حق دار کیونکر ہوسکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے لفظ مکروہ استعمال کرکے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ لعنت نہ کرنے کی نہی تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے جبکہ لعنت کرنے والے کا مقصد صرف اسے برا بھلا کہنا ہو،ہاں اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور رہنے کی بددعا دینا ہے تو نہی تحریمی ہوگی۔(فتح الباری:12/92)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: میں کسی پر حد قائم نہیں کرتا جس سے مر جائے، پھر مجھے اس کا رنج ہو سوائے شرابی کے۔ اگر وہ حد قائم کرنے سے مر جائے تو اس کی دیت ادا کروں گا۔ یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر نہیں کی، اس لیے اگر کسی شرابی کی کوڑے کھاتے کھاتے موت واقع ہو جائے یا چالیس سے زیادہ کوڑے کھانے سے وہ مر جائے تو اس سورت میں اس کی دیت دی جائے گی اور یہ دیت حاکم وقت کے عاقلہ (عصبہ رشتے داروں) پر ہوگی۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوڑوں کہ علاوہ جوتوں اور چھڑیوں سے موت واقع ہو جائے تو اس صورت میں دیت نہیں دی جائے گی۔ (فتح الباري:83/12) (1) ہمارے ہاں کوڑے کے لیے خاص طور پر بید تیار کیا جاتا ہے، اسے مارنے کے لیے ایک خاص آدمی ہوتا ہے جو مارنے کی مشق کرتا رہتا ہے، بید کو بھگو بھگو کر مارا جاتا ہے تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیا جائے، مجرم کو ننگا کر کے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ جب جلاد مارنے کے لیے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے اس کے سرین پر مارتا ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ بن کر اڑتا چلا جاتا ہے۔ بسا اوقات تو ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اس طرح کی ’’مہذب‘‘ سزائیں دینے والے حضرات اسلام کی سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں۔ اس پر ہم تعجب ہی کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ عطا کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے خالد بن الحارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، انہوں نے کہا کہ میں نے عمیر بن سعید نخعی سے سنا، کہا کہ میں نے علی بن ابی طالب ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نہیں پسند کروں گا کہ حد میں کسی کو ایسی سزا دوں کہ وہ مر جائے اور پھر مجھے اس کا رنج ہو، سوا شرابی کے کہ اگر وہ مر جائے تو میں اس کی دیت ادا کر دوں گا کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Ali Ibn Abi Talib (RA) : I would not feel sorry for one who dies because of receiving a legal punishment, except the drunk, for if he should die (when being punished), I would give blood money to his family because no fixed punishment has been ordered by Allah's Apostle (ﷺ) for the drunk.