Sahi-Bukhari:
Limits and Punishments set by Allah (Hudood)
(Chapter: Al-Hudud are expiation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6784.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک مجلس میں تھے تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے اور نہ زنا ہی کے مرتکب ہوگے۔ پھر آپ نے پوری آیت پڑھی۔ ’’تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہیں اور جس نے ان میں سے کسی جرم کا ارتکاب کیا، پھر اس پر اسے سزا ہوئی تو وہ اس کا کفارہ ہے اور جو شخص ان میں سے کوئی غلطی کر گزرا اور اللہ تعالٰی نے اس پر پردہ ڈالا تو اگر اللہ چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس پر عذاب دے گا۔“
تشریح:
(1)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نہیں جانتا کہ حدود کفارہ ہیں؟‘‘ (المستدرك للحاکم:450/2، حدیث:3683) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا کہ حدود کفارہ ہیں اور گناہوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہیں۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گناہوں کے ساتھ شرک کے ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر مشرک کو دنیا میں سزا مل جائے تو وہ اس کے شرک کا کفارہ ہوگا کیونکہ کفارومشرکین کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا یقینی ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کے ایک مخصوص معنی ہیں کہ جس مسلمان پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوگی۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیت کریمہ تلاوت فرمائی وہ حسب ذیل ہے: ’’اے نبی! جب آپ کے پاس اہل ایمان خواتین اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گی،نہ وہ چوری کریں گی اور نہ وہ زنا کریں گی،نہ وہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی(بے بنیاد اور بلا ثبوت بہتان طرازی نہیں کریں گی)اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں،یقیناً اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (الممتحنة:50: 12) واضح رہے کہ اس حدیث میں بیعت مذکور فتح مکہ کے بعد ہوئے تھی کیونکہ آیت مذکورہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور لیلۂ عقبہ میں جو بیعت ہوئی تھی وہ تنگی وآسانی اور خوشی وپریشانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت پر تھی۔ (فتح الباري:103/12) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6545
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6784
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6784
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6784
تمہید کتاب
دنیا میں مال ودولت کی فروانی مفاسد وخرابیاں پیدا کرنے کا باعث ہے،اسی طرح بعض اوقات دنیا کے سازو سامان سے محرومی بھی امن وسکون تباہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔تقسیم ترکہ کے وقت یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔کچھ رشتے داروں کو مفت میں دولت مل جاتی ہے تو کچھ تعلق دار اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ سخت ترین ملامت اور تکلیف دہ سزا کا مقرر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔شریعت میں ایسی سزاؤں کو حدودوتعزیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔غالباً امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الفرائض کے بعد کتاب الحدود کو اسی مقصد کے پیش نظر بیان کیا ہے۔حدود، حد کی جمع ہے۔لغوی اعتبار سے اس کے معنی رکاوٹ ہیں۔چوکیدار کو حداد اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اندر داخل ہونے سے منع کرتا ہے اور ان کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔شریعت کی نظر میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو۔اس سے تعزیر غیر مقرر سزا ور قصاص وغیرہ خارج ہے۔ چونکہ حد کی مختلف قسمیں ہیں،جیسے، حدزنا، ، حد قذف اور حد شراب نوشی وغیرہ،اس لیے قسموں کے اعتبار سے حد کی جمع حدودآئی ہے۔بعض اوقات حدود سے گناہ بھی مراد لیے جاتے ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یہ معاصی اور گناہ اللہ کی حدیں ہیں تم ان قریب نہ جاؤ۔"(البقرۃ 2: 87) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حدودوتعزیرات کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:معلوم ہونا چاہیے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حد جاری فرمائی ہے اوراس قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں مختلف قسم کے مفاسد موجود ہیں۔ان گناہوں کے کرنے سے زمین میں فساد پھیل جاتا ہے اور اہل زمین کا امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے اور ایسے گناہوں کی خواہش انسانی نفوس میں ہمیشہ جذباتی کیفیت پیدا کردیتی ہے جس کی روک تھا سے لوگ قاصر ہوجاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے نقصانات ہوجاتے ہیں کہ اکثر اوقات خود مظلوم شخص بھی ان کی مدافعت نہیں کرپاتا،پھر عام لوگوں میں یہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس قسم کے گناہوں کو روکنے کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ملامت کا پہلو بھی ہوتا ہے،تاکہ یہ عقوبت وسزا اور خطرۂ لعن طعن سامنے رہے اور لوگ اس قسم کے گناہ کرنے سے ڈرتے رہیں۔شریعت میں سزائیں مقرر کرنے کی یہی وجہ ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)واضح رہے کہ انسان دو طریقوں سے جرائم سے بچ سکتا ہے،چنانچہ وہ انسان جس میں حیوانیت کا غلبہ ہے اسے سخت قسم کی عقوبت اور سنگین سزا ہی جرم کرنے سے باز رکھ سکتی ہے جیسا کہ حیوانات کو سخت جسمانی سزا ہی سرکشی سے باز رکھتی ہے،اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر حیوانیت کے بجائے جاہ وجلال کی محبت غالب ہوتی ہے،اس قسم کے لوگوں کو سخت قسم کی عار اور غیرت جرم کرنے سے روکتی ہے۔ ایسے شخص کے حق میں جسمانی تکلیف کے مقابلے میں عاروغیرت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود میں یہ دونوں طریقے سمو دیے گئے ہیں۔بہر حال جرائم کی روک تھام کے لیے حدود اللہ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔احادیث میں انھیں قائم کرنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک حد جس کے مطابق زمین میں عمل کیا جاتا ہے وہ اہل زمین کے لیے چالیس دنوں کی بارش سے بہتر ہے۔"(سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2538) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " اللہ کی حدود میں سے ایک حد قائم کردینا اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2537) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت زنا کاری،شراب نوشی اور چوری وغیرہ کی حدیں بیان کی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے حد کو سترہ گناہوں پر واجب مانا ہے۔ان میں سے مرتد ہونا، ڈاکا مارنا، زنا کرنا،تہمت لگانا،شراب پینا اور چوری کرنا۔ان پر حد قائم کرنے کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اور کچھ جرائم پر حد قائم کرنے میں اختلاف ہے،مثلاً: مانگی ہوئی چیز کا انکار کرنا،شراب کے علاوہ اور کوئی نشہ اور چیز استعمال کرنام،زنا کے علاوہ کسی چیز کی تہمت لگانا یا لواطت اگرچہ اپنی بیوی سے ہو،حیوانات سے جنسی خواہش پوری کرنا،عورتوں کا باہمی بدکاری کرنا، عورت کا کسی جانور سے خواہش پوری کرنا، جادو کرنا، سستی کہ وجہ سے نماز ترک کرنا اور شرعی عذر کے بغیر انسان کا روزہ توڑ دینا وغیرہ۔(فتح الباری:12/71)جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گی بصورت دیگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو اسے سزا دے کر اس کی تلافی کردے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے"الحدود كفارة“ کے عنوان میں اس امر کو بیان کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: "حدود شرعیہ سے گناہوں کے کفار کی دوجہتیں ہیں کیونکہ اس کا مرتکب یا تو ایسا شخص ہے جو امر الٰہی کا پابند اور حکم الٰہی کی اطاعت کرنے والا ہوگا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہوگا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کی حد کفارہ بن جاتی ہے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اسے تکلیف وایذا پہنچائی جائے،اس طرح اسے گناہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔یہی باز رہنا اس کا کفارہ ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ، بحث حدود)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں مختلف مسائل واحکام کے استنباط کے لیے ایک سوتین (103)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اناسی(79) موصول اور چوبیس(24) کے قریب معلق اور متابعات ہیں،نیز باسٹھ(62) مکرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔آپ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین سے بیس(20)آثار بھی پیش کیے ہیں۔ان تمام مرفوع روایات اور آثار پر چھیالیس (46)چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں۔چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں:شراب نوشی کی سنگینی، شرابی کو مارنا، شراب کا رسیا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا،غیر معین چور کو لعنت کرنا،حدود کفارہ ہیں،اللہ کی خاطر حدود قائم کرنا،امیرو غریب پر حد قائم کرنا،حدود کے متعلق سفارش کی حیثیت، چور کی توبہ،فحش کاری ترک کرنے کی فضیلت ، زنا کاروں کا گناہ، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، دیوانے مردوعورت کورجم نہ کیا جائے، غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے مارے جائیں،جرائم پیشہ لوگوں اور ہیجڑوں کو جلا وطن کرنا،تعزیرو تادیب کی سزا،پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،غلام پر تہمت لگانا،حاکم کی غیر موجودگی میں حدلگانا۔بہرحال اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصلاح معاشرہ سے ہے۔ہماری گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الحدود کا مطالعہ کریں اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمیں یا رب العالمین.
تمہید باب
جب انسان کوئی ایسا کام کرے جس پر حد لگانا ضروری ہو اور پھر اس پر حد قائم کردی جائے تو حد قائم ہونے سے گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے اور وہ دھل جاتا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک مجلس میں تھے تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے چوری نہیں کرو گے اور نہ زنا ہی کے مرتکب ہوگے۔ پھر آپ نے پوری آیت پڑھی۔ ’’تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہیں اور جس نے ان میں سے کسی جرم کا ارتکاب کیا، پھر اس پر اسے سزا ہوئی تو وہ اس کا کفارہ ہے اور جو شخص ان میں سے کوئی غلطی کر گزرا اور اللہ تعالٰی نے اس پر پردہ ڈالا تو اگر اللہ چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس پر عذاب دے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نہیں جانتا کہ حدود کفارہ ہیں؟‘‘ (المستدرك للحاکم:450/2، حدیث:3683) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا کہ حدود کفارہ ہیں اور گناہوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہیں۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گناہوں کے ساتھ شرک کے ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر مشرک کو دنیا میں سزا مل جائے تو وہ اس کے شرک کا کفارہ ہوگا کیونکہ کفارومشرکین کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا یقینی ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کے ایک مخصوص معنی ہیں کہ جس مسلمان پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوگی۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیت کریمہ تلاوت فرمائی وہ حسب ذیل ہے: ’’اے نبی! جب آپ کے پاس اہل ایمان خواتین اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گی،نہ وہ چوری کریں گی اور نہ وہ زنا کریں گی،نہ وہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی(بے بنیاد اور بلا ثبوت بہتان طرازی نہیں کریں گی)اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں،یقیناً اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (الممتحنة:50: 12) واضح رہے کہ اس حدیث میں بیعت مذکور فتح مکہ کے بعد ہوئے تھی کیونکہ آیت مذکورہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور لیلۂ عقبہ میں جو بیعت ہوئی تھی وہ تنگی وآسانی اور خوشی وپریشانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت پر تھی۔ (فتح الباري:103/12) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوادریس خولانی نے اور ان سے عبادہ بن صامت ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے یہاں ایک مجلس میں بیٹھے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ سے عہد کرو اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے اور زنا نہیں کرو گے اور آپ نے یہ آیت پوری پڑھی ”پس تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا اس کا ثواب اللہ کے یہاں ہے اور جو شخص ان میں سے غلطی کرگزرا اور اس پر اسے سزا ہوئی تو وہ اس کا کفارہ ہے اور جو شخص ان میں سے کوئی غلطی کرگزرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کردی تو اگر اللہ چاہے گا تو اسے معاف کردے گا اور اگر چاہےگا تو اس پر عذاب دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' 'Ubadah bin As-Samit (RA): We were with the Prophet (ﷺ) in a gathering and he said, 'Swear allegiance to me that you will not worship anything besides Allah, Will not steal, and will not commit illegal sexual intercourse." And then (the Prophet) recited the whole Verse (i.e. 60:12). The Prophet (ﷺ) added, 'And whoever among you fulfills his pledge, his reward is with Allah; and whoever commits something of such sins and receives the legal punishment for it, that will be considered as the expiation for that sin, and whoever commits something of such sins and Allah screens him, it is up to Allah whether to excuse or punish him."