باب: جو شخص کسی عذر کی وجہ سے صف چھوڑ کر امام کے بازو میں کھڑا ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Whoever stood by the side of the Imam because of a genuine cause [in Salat (prayer)])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
683.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے دوران علالت میں حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ وہ اس دوران میں نماز پڑھاتے رہے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ نے کچھ افاقہ محسوس کیا، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ جب ابوبکر صدیق ؓ کی نگاہ آپ ﷺ پر پڑی تو انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں ان کے برابر بیٹھ گئے۔ اندریں حالات حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے اور دیگر لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔
تشریح:
(1) جس وقت مقتدی زیادہ ہوں تو امام آگے اور مقتدی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور اگر مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر مقتدی زیادہ ہوں تو کسی ضرورت کے پیش نظر اگر کوئی مقتدی امام کے پہلو میں کھڑا ہوجائے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے۔ اسے بیان کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا گیا ہے، لیکن عنوان میں مقتدی کا امام کے پہلو میں کھڑا ہونا مذکور ہے جبکہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حضرت ابو بکر ؓ کے پہلو میں بیٹھنا بیان ہوا ہے۔ دراصل مذکورہ حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ امام نہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ امامت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے اور حضرت ابو بکر ؓ مقتدی تھے جو امام کے پہلو میں کھڑے تھے۔ امام بخاری ؒ نے اس صورت کا جواز بیان کیا ہے۔ (2) دو صورتوں کے علاوہ ایک صف میں مقتدی کا امام کے ساتھ کھڑا ہونا درست نہیں:٭جگہ تنگ ہو اور امام آگے کھڑا نہ ہوسکتا ہو۔٭ امام کے ساتھ صرف ایک ہی مقتدی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کو اپنی دائیں جانب کھڑا کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اپنے پہلو میں اس لیے کھڑا رکھا تھا تاکہ وہ آپ کی تکبیرات انتقال لوگوں کو سنا سکیں۔ (شرح الکرماني:25/2) حافظ ابن حجر ؒ نے مقتدی کو امام کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہونے کی ایک مزید صورت بیان کی ہے جب نمازی عریاں ہو تو بھی امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ ان کے نزدیک بلا عذر ایک ہی صف میں کھڑے ہونا جائز ہے لیکن افضل نہیں۔ (فتح الباري:216/2) نیز عورتوں کی امام اگر عورت ہو تو بھی آگے نہیں بلکہ عورتوں کی پہلی صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
674
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
683
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
683
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
683
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے دوران علالت میں حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ وہ اس دوران میں نماز پڑھاتے رہے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ نے کچھ افاقہ محسوس کیا، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ جب ابوبکر صدیق ؓ کی نگاہ آپ ﷺ پر پڑی تو انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں ان کے برابر بیٹھ گئے۔ اندریں حالات حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے اور دیگر لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) جس وقت مقتدی زیادہ ہوں تو امام آگے اور مقتدی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور اگر مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر مقتدی زیادہ ہوں تو کسی ضرورت کے پیش نظر اگر کوئی مقتدی امام کے پہلو میں کھڑا ہوجائے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے۔ اسے بیان کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا گیا ہے، لیکن عنوان میں مقتدی کا امام کے پہلو میں کھڑا ہونا مذکور ہے جبکہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حضرت ابو بکر ؓ کے پہلو میں بیٹھنا بیان ہوا ہے۔ دراصل مذکورہ حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ امام نہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ امامت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے اور حضرت ابو بکر ؓ مقتدی تھے جو امام کے پہلو میں کھڑے تھے۔ امام بخاری ؒ نے اس صورت کا جواز بیان کیا ہے۔ (2) دو صورتوں کے علاوہ ایک صف میں مقتدی کا امام کے ساتھ کھڑا ہونا درست نہیں:٭جگہ تنگ ہو اور امام آگے کھڑا نہ ہوسکتا ہو۔٭ امام کے ساتھ صرف ایک ہی مقتدی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کو اپنی دائیں جانب کھڑا کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اپنے پہلو میں اس لیے کھڑا رکھا تھا تاکہ وہ آپ کی تکبیرات انتقال لوگوں کو سنا سکیں۔ (شرح الکرماني:25/2) حافظ ابن حجر ؒ نے مقتدی کو امام کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہونے کی ایک مزید صورت بیان کی ہے جب نمازی عریاں ہو تو بھی امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ ان کے نزدیک بلا عذر ایک ہی صف میں کھڑے ہونا جائز ہے لیکن افضل نہیں۔ (فتح الباري:216/2) نیز عورتوں کی امام اگر عورت ہو تو بھی آگے نہیں بلکہ عورتوں کی پہلی صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے زکریا بن یحییٰ بلخی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے خبر دی، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں حکم دیا کہ ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ عروہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن آپ کو کچھ ہلکا پایا اور باہر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ انھوں نے جب حضور اکرم ﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن آنحضور ﷺ نے اشارے سے انھیں اپنی جگہ قائم رہنے کا حکم فرمایا۔ پس رسول کریم ﷺ ابوبکر صدیق ؓ کے بازو میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر ؓ کی پیروی کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
گو باب میں امام کے بازو میں کھڑا ہونا مذکور ہے اور حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ابوبکر ؓ کے بازو میں بیٹھنا بیان ہو رہا ہے۔ مگر شاید آپ پہلے بازو میں کھڑے ہو کر پھر بیٹھ گئے ہوں گے یا کھڑے ہونے کو بیٹھنے پر قیاس کر لیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa's father: 'Aisha (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) ordered Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer during his illness and so he led them in prayer." 'Urwa, a sub narrator, added, "Allah's Apostle (ﷺ) felt a bit relieved and came out and Abu Bakr (RA) was leading the people. When Abu Bakr (RA) saw the Prophet (ﷺ) he retreated but the Prophet (ﷺ) beckoned him to remain there. Allah's Apostle (ﷺ) sat beside Abu Bakr. Abu Bakr (RA) was following the prayer of Allah's Apostle (ﷺ) and the people were following the prayer of Abu Bakr."