باب : پیٹ کے بچے کا بیان اور اگر کوئی عورت خون کرے تو اس کی دیت ددھیال والوں پر ہوگی نہ کہ اس کی اولاد پر
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: The Diya is to be collected from the father of the killer and his ‘Asaba but not from the killer’s children)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6910.
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: بنو ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑپڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری عورت پر پتھر پھینک مارا جس سے وہ عورت اپنے پیٹ کے بچے سمیت مرگئی۔ مقتولہ کے رشتے دار، نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لے کر گئے تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ پیٹ کے بچے کی دیت ایک غلام یا کنیز ہے اور عورت کی دیت قاتلہ عورت کے ددھیال والوں پر واجب قرار ہے۔
تشریح:
(1)اگرچہ ان احادیث میں والد کا ذکر نہیں ہے لیکن اس حدیث کے دوسرے طرق میں والد کی صراحت ہے،یعنی مقتولہ عورت کی دیت قاتلہ کے والد اور اس کے دیگر عصبات کے ذمے ہے،اس کے لڑکے پر نہیں ہوگی،نیز ذوالارحام کے ذمے بھی دیت نہیں ہوگی اسی وجہ سے مادری بھائی بھی دیت ادا نہیں کریں گے۔(فتح الباری:12/315) (2)ایک روایت میں صراحت ہے:" جب ایک عورت کے مارنے سے دوسری عورت اور اس کے پیٹ کا بیٹا فوت ہوگیا تو اس کا خاوند قاتلہ کے والد کے پاس گیا اور اپنی بیوی اور بیٹے کی دیت کا اس سے مطالبہ کیا۔قاتلہ کے باپ نے کہا:اس کی دیت اس کے بیٹوں کے ذمے ہے جو بنو لحیان قبیلے کے سردار ہیں، پھر یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فیصلہ دیا کہ عورت کی دیت قاتلہ کے ددھیال کے ذمے ہے اور بچے کی دیت غلام یا کنیز دینا ہے۔"(السنن الکبریٰ للبیھقی:8/108) لڑنے والی دونوں عورتیں سیدنا حمل بن نابغہ رضی اللہ عنہ کی بیویاں تھیں، ان میں سے ایک حاملہ تھی،دوسری نے خیمے کا بانس مارا جس سے وہ حاملہ اور اس کا بچہ فوت ہوگیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6662
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6910
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6910
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6910
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
دیت کی ادائیگی قاتل کے عاقلہ کے ذمے اور عاقلہ سے مراد وہ جماعت ہے جو اس کے دودھیال کی طرف سے ہو۔اس میں آباء واجداد، بھائی،بھتیجے،چچا اور چچا کے بیٹے شامل ہیں۔ہر ایک اپنے حصے کے مطابق ادائیگی کرے گا اور یہ ادائیگی قسطوں میں اور یکمشت دونوں طرح کی جاسکتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: بنو ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑپڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری عورت پر پتھر پھینک مارا جس سے وہ عورت اپنے پیٹ کے بچے سمیت مرگئی۔ مقتولہ کے رشتے دار، نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لے کر گئے تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ پیٹ کے بچے کی دیت ایک غلام یا کنیز ہے اور عورت کی دیت قاتلہ عورت کے ددھیال والوں پر واجب قرار ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1)اگرچہ ان احادیث میں والد کا ذکر نہیں ہے لیکن اس حدیث کے دوسرے طرق میں والد کی صراحت ہے،یعنی مقتولہ عورت کی دیت قاتلہ کے والد اور اس کے دیگر عصبات کے ذمے ہے،اس کے لڑکے پر نہیں ہوگی،نیز ذوالارحام کے ذمے بھی دیت نہیں ہوگی اسی وجہ سے مادری بھائی بھی دیت ادا نہیں کریں گے۔(فتح الباری:12/315) (2)ایک روایت میں صراحت ہے:" جب ایک عورت کے مارنے سے دوسری عورت اور اس کے پیٹ کا بیٹا فوت ہوگیا تو اس کا خاوند قاتلہ کے والد کے پاس گیا اور اپنی بیوی اور بیٹے کی دیت کا اس سے مطالبہ کیا۔قاتلہ کے باپ نے کہا:اس کی دیت اس کے بیٹوں کے ذمے ہے جو بنو لحیان قبیلے کے سردار ہیں، پھر یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فیصلہ دیا کہ عورت کی دیت قاتلہ کے ددھیال کے ذمے ہے اور بچے کی دیت غلام یا کنیز دینا ہے۔"(السنن الکبریٰ للبیھقی:8/108) لڑنے والی دونوں عورتیں سیدنا حمل بن نابغہ رضی اللہ عنہ کی بیویاں تھیں، ان میں سے ایک حاملہ تھی،دوسری نے خیمے کا بانس مارا جس سے وہ حاملہ اور اس کا بچہ فوت ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن المسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ بنی ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑیں اور ایک نے دوسری عورت پر پتھر پھینک مارا جس سے وہ عورت اپنے پیٹ کے بچے( جنین) سمیت مرگئی۔ پھر( مقتولہ کے رشہ دار) مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے دربار میں لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فیصلہ کیا کہ پیٹ کے بچے کا خون بہا ایک غلام یا کنیز دینی ہوگی اور عورت کے خون بہا کو قاتل عورت کے عاقلہ( عورت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار عصبہ) کے ذمہ واجب قرار دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) :
Two women from Hudhail fought with each other and one of them hit the other with a stone that killed her and what was in her womb. The relatives of the killer and the relatives of the victim submitted their case to the Prophet (ﷺ) who judged that the Diya for the fetus was a male or female slave, and the Diya for the killed woman was to be paid by the 'Asaba (near relatives) of the killer.