باب: جو شخص اسلام کے فرض ادا کرنے سے انکار کرے اور جو شخص مرتد ہوجائے اس کا قتل کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: Killing those who refuse to fulfil the duties enjoined by Allah, and considering them as apostates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6924.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے وفات پائی اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کفر کی راہ پر چل پڑے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اے ابو بکر! آپ ان لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک وہ لا إله إلا اللہ کہہ دیں، پھر جس نے لا إله إلا اللہ کہہ دیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان کو بچا لیا۔ ہاں، اسلام کا حق وصول کرنے کے لیے اس کی جان یامال کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور اس کا حساب لینے والا اللہ تعالٰی ہے۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6676
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6924
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6924
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6924
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے وفات پائی اورحضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کفر کی راہ پر چل پڑے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اے ابو بکر! آپ ان لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک وہ لا إله إلا اللہ کہہ دیں، پھر جس نے لا إله إلا اللہ کہہ دیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان کو بچا لیا۔ ہاں، اسلام کا حق وصول کرنے کے لیے اس کی جان یامال کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور اس کا حساب لینے والا اللہ تعالٰی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ ہوئے اور عرب کے کچھ لوگ کافر بن گئے تو حضرت عمر ؓ نے ان سے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑوگے آنحضرت ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم ہوا جب تک وہ لا إله إلا اللہ نہ کہیں پھر جس نے لا إله إلا اللہ کہہ لیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا البتہ کسی حق کے بدلہ اس کی جان یا مال کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ اور بات ہے۔ اب اس کے دل میں کیا ہے اس کا حساب لینے والا اللہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : When the Prophet (ﷺ) died and Abu Bakr (RA) became his successor and some of the Arabs reverted to disbelief, 'Umar said, "O Abu Bakr! How can you fight these people although Allah's Apostle (ﷺ) said, 'I have been ordered to fight the people till they say: 'None has the right to be worshipped but Allah, 'and whoever said, 'None has the right to be worshipped but Allah', Allah will save his property and his life from me, unless (he does something for which he receives legal punishment) justly, and his account will be with Allah?' "