باب: دل ملانے کے لیے کسی مصلحت سے کہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہو خارجیوں کو نہ قتل کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: Whoever gave up fighting against Al-Khawarij in order to create intimacy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6934.
حضرت بسیر بن عمرو سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت سہل بن حنیف ؓ سے پوچھا: کیا آپ نے نبی ﷺ کو خوارج کے متعلق کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”وہاں سے ایک قوم نکلے گی۔ یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار کو زخمی کر کے نکل جاتا ہے۔“
تشریح:
(1) اس سے پہلے احادیث میں حروریہ کا ذکر تھا،اس حدیث میں صراحت ہے کہ اس سے مراد خوارج کا گروہ تھا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کے وقت ان کا ظہور ہوا، چنانچہ اس گروہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ختم کیا۔ان میں اس شخص کی برآمدگی بھی ہوئی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی۔ (3) خوارج کے متعلق تقریباً پچیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس فتنے کا ذکر ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس فتنے کی سرکوبی کی۔ انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت عداوت تھی۔ جس طرح روافض ان سے عقیدت میں گمراہ ہوئے اسی طرح خوارج ان کی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے راہ راست سے بھٹک گئے۔ خذلهم الله أجمعين في الدنيا والآخرة، آ مين يارب العالمين۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6685
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6934
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6934
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6934
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
خارجی کے مراد معنی ہیں: باغی۔انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔یہ ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتدا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانۂ خلافت سے ہوئی۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ گروہ میری امت کے برے لوگوں پر مشتمل ہوگا جنھیں میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔(فتح الباری:12/361) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض تالیف قلبی کے لیے ان کے سرغنے کو قتل نہ کیا تاکہ لوگوں میں نفرت پیدا نہ ہو لیکن جب اسلام کو غلبہ ملہ تو اب تالیف کی ضرورت نہیں،ہاں اگر امام وقت ضرورت محسوس کرے تو کسی مصلحت کی وجہ سے ان سے قتال ترک کرسکتا ہے۔بہرحال اس قماش کے لوگوں سے ہر قسم کا قتال ضروری ہے،خواہ وہ فکری ہو یا عملی۔واللہ اعلم
حضرت بسیر بن عمرو سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت سہل بن حنیف ؓ سے پوچھا: کیا آپ نے نبی ﷺ کو خوارج کے متعلق کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”وہاں سے ایک قوم نکلے گی۔ یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار کو زخمی کر کے نکل جاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے پہلے احادیث میں حروریہ کا ذکر تھا،اس حدیث میں صراحت ہے کہ اس سے مراد خوارج کا گروہ تھا۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کے وقت ان کا ظہور ہوا، چنانچہ اس گروہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ختم کیا۔ان میں اس شخص کی برآمدگی بھی ہوئی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی۔ (3) خوارج کے متعلق تقریباً پچیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس فتنے کا ذکر ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس فتنے کی سرکوبی کی۔ انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت عداوت تھی۔ جس طرح روافض ان سے عقیدت میں گمراہ ہوئے اسی طرح خوارج ان کی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے راہ راست سے بھٹک گئے۔ خذلهم الله أجمعين في الدنيا والآخرة، آ مين يارب العالمين۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیادہ نے، کہا ہم سے سلمان شیبانی نے، کہا ہم سے یسیر بن عمرو نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن حنیف (بدری صحابی) ؓ سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم ﷺ کو خوارج کے سلسلے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور آپ نے عراق کی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا تھا کہ ادھر سے ایک جماعت نکلے گی یہ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام مسلم نے حضرت ابوذر سے روایت کیا خارجی تمام مخلوقات میں بدتر ہیں اور بزار نے مرفوعاً نکالا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کا ذکر کیا۔ فرمایا میری امت میں بدترین لوگ ہوں گے ان کو میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔ خارجی ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتداء حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانہ خلافت سے ہوئی۔ یہ لوگ ظاہر میں بڑے عابد زاہد قاری قرآن تھے مگر دل میں ذرا بھی قرآن کا نور نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو یہ لوگ شروع شروع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔ جب جنگ صفین ہو چکی اور تحکیم کی رائے قرار پائی اس وقت یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی الگ ہوگئے۔ ان کو برا کہنے لگے کہ انہوں نے تحکیم کیسے قبول کی۔ حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے ﴿إنِ الحکمُ إلَّا ِﷲِ﴾(الأنعام: 57) ان کا سردار عبداللہ بن کوا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور خود بھی سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کی جنگ میں ان کو قتل کیا۔ چند لوگ بچ کر بھاگ نکلے۔ ان ہی میں ایک عبدالرحمن بن ملجم تھا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ یہ خارجی کمبخت حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں اور کبیرہ گناہ کرنے و الے کو ہمیشہ کے لیے دوزخی کہتے ہیں اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز کی قضا واجب جانتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر اپنے دل سے کرتے ہیں اور جو آیات کافروں کے باب میں تھیں وہ مومنوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ لفظ خارجی کے مرادی معنی باغی کے ہیں یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بغاوت کرنے والے یہ درحقیقت رافضیوں کے مقابلہ پر پیدا ہوکر امت کے انتشار درانتشار کے موجب بنے۔ خذلهم اللہ أجمعین ان جملہ جھگڑوں سے بچ کر صراط مستقیم پر چلنے والا گروہ اہل سنت والجماعت کا گروہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہر دو کی عزت کرتا ہے اور ان سب کی بخشش کے لیے دعا گو ہے۔ ﴿تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۚ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ﴾(البقرة: 134)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yusair bin 'Amr (RA) : I asked Sahl bin Hunaif, "Did you hear the Prophet (ﷺ) saying anything about Al-Khawarij?" He said, "I heard him saying while pointing his hand towards Iraq. "There will appear in it (i.e, Iraq) some people who will recite the Qur'an but it will not go beyond their throats, and they will go out from (leave) Islam as an arrow darts through the game's body.' "