Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: Tricks by an official person to obtain presents)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6981.
حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے کہ حضرت ابو رافع ؓ نے حضرت سعد بن مالک ؓ کو ایک گھر چار سو مثقال میں فرووخت کیا اور فرمایا: ”اگر میں نے نبی ﷺ سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ پڑوسی ہمسائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔“ تو میں آپ کو یہ گھر فروخت نہ کرتا۔
تشریح:
1۔حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں ان کے دو گھر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حویلی میں تھے۔ انھوں نے فروخت کے لیے سب سے پہلے اپنے پڑوسی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رابطہ کیا۔ انھوں نے خریدنے سے انکار کر دیا اس کے لیے حضرت منوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو درمیان میں لائے اور اس مکان کی قیمت انھیں پانچ سو دینار نقد ملتی تھی لیکن حق ہمسائیگی کو ترجیح دیتے ہوئے نقصان برداشت کر لیا اور چار ہزار مثقال کے عوض حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کے ساتھ (صحیح البخاري، الشفعة، حدیث: 2258) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الشفعہ میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ الْبَيْعِ) ’’فروخت سے پہلے شفعہ کرنے والے پر جائیداد کو پیش کرنا۔‘‘ اب حیلہ سازوں کی حیلہ گری دیکھیے کہ انھوں نے شفعہ کرنے والے کو حق شفعہ سے محروم کرنے کے لیے کئی قسم کے حیلے ایجاد کیے ہیں اس سلسلے میں ہم پہلے تفصیل بیان کر آئے ہیں۔ 3۔بہر حال حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق ہمسائیگی کی ادائیگی میں کسی حیلے بہانے کو آڑ نہیں بنایا بلکہ پہلے انھیں ترجیح دیتے ہوئے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خریدنے کی پیشکش کی۔ صحابہ کرام اور جملہ سلف صالحین کا یہی طرز عمل تھا۔ وہ حیلوں بہانوں کی تلاش میں نہیں رہتے تھے بلکہ شرعی احکام پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ 4۔ ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو آخر میں بیان کیا ہے تاہم حیلہ سازوں نے اپنی ایک الگ کائنات بسا رکھی ہے وہ کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے بہرحال اہل حدیث حضرات اس قسم کے حیلوں سے بیزار ہیں اور ان سے اعلان براءت و نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ اثبات حق کے لیے نہیں بلکہ ابطال حق کے لیے کیے جاتے ہیں جس کی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6731
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6981
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6981
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6981
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
حضرت عمرو بن شرید سے روایت ہے کہ حضرت ابو رافع ؓ نے حضرت سعد بن مالک ؓ کو ایک گھر چار سو مثقال میں فرووخت کیا اور فرمایا: ”اگر میں نے نبی ﷺ سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ پڑوسی ہمسائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔“ تو میں آپ کو یہ گھر فروخت نہ کرتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں ان کے دو گھر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حویلی میں تھے۔ انھوں نے فروخت کے لیے سب سے پہلے اپنے پڑوسی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رابطہ کیا۔ انھوں نے خریدنے سے انکار کر دیا اس کے لیے حضرت منوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو درمیان میں لائے اور اس مکان کی قیمت انھیں پانچ سو دینار نقد ملتی تھی لیکن حق ہمسائیگی کو ترجیح دیتے ہوئے نقصان برداشت کر لیا اور چار ہزار مثقال کے عوض حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا اور وہ بھی بالاقساط ادائیگی کے ساتھ (صحیح البخاري، الشفعة، حدیث: 2258) 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الشفعہ میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ الْبَيْعِ) ’’فروخت سے پہلے شفعہ کرنے والے پر جائیداد کو پیش کرنا۔‘‘ اب حیلہ سازوں کی حیلہ گری دیکھیے کہ انھوں نے شفعہ کرنے والے کو حق شفعہ سے محروم کرنے کے لیے کئی قسم کے حیلے ایجاد کیے ہیں اس سلسلے میں ہم پہلے تفصیل بیان کر آئے ہیں۔ 3۔بہر حال حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق ہمسائیگی کی ادائیگی میں کسی حیلے بہانے کو آڑ نہیں بنایا بلکہ پہلے انھیں ترجیح دیتے ہوئے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خریدنے کی پیشکش کی۔ صحابہ کرام اور جملہ سلف صالحین کا یہی طرز عمل تھا۔ وہ حیلوں بہانوں کی تلاش میں نہیں رہتے تھے بلکہ شرعی احکام پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ 4۔ ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو آخر میں بیان کیا ہے تاہم حیلہ سازوں نے اپنی ایک الگ کائنات بسا رکھی ہے وہ کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے بہرحال اہل حدیث حضرات اس قسم کے حیلوں سے بیزار ہیں اور ان سے اعلان براءت و نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ اثبات حق کے لیے نہیں بلکہ ابطال حق کے لیے کیے جاتے ہیں جس کی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا‘ ان سے سفیان نے‘ ان سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا‘ ان سے عمر بن شرید نے کہ ابو رافع ؓ نے سعد بن مالک ؓ کو ایک گھر چار سو مثقال میں بیچا اور کہا کہ اگر میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی حق پڑوق کا زیادہ حق دار ہے تو میں آپ کو یہ گھر نہ دیتا (اور کسی کے ہاتھ بیچ ڈالتا)
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو رافع نے حق جوار کی ادائیگی میں کسی حیلہ بہانے کو آڑ نہیں بنا یا۔ صحابہ کرام اور جملہ سلف صالحین کا یہی طرز عمل تھا وہ حیلوں بہانوں کی تلاش نہیں کرتے اور احکام شرع کو بجا لانا اپنی سعادت جانتے تھے۔ کتاب الحیل کو اسی آگاہی کے لیے اس حدیث پر ختم کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Ash-Sharid (RA) : Abu Rafi' sold a house to Sa'd bin Malik for four-hundred Mithqal of gold, and said, "If I had not heard the Prophet (ﷺ) saying, 'The neighbor has more right to be taken care of by his neighbor (than anyone else),' then I would not have sold it to you."