باب : وفود عرب کو نبی کریم ﷺکی یہ وصیت کہ ان لوگوں کو جو موجود نہیں ہیں دین کی باتیں پہنچادیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Accepting Information Given by a Truthful Person
(Chapter: Wasat of the Prophet (saws) to the Arab delegates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ مالک بن حویرث صحابی نے نقل کیا
7266.
سیدنا ابو حمزہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدناابن عباس ؓ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کس قوم کا وفد ہے؟“ انہوں نے کہا: قبیلہ ربیعہ ( کی ایک شاخ) کا ۔ آپ نے فرمایا: ”کسی قسم کی رسوائی یا شرمندگی اٹھائے بغیر اس وفد کو مبارک ہو۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضرہیں۔ لہذا آپ ہمیں ایسی باتیں بتائیں جن پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔ پھر انہوں نے مشروبات کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں چار چیزوں سے منع فرمایا اور چار چیزوں کو بجا لانے کا حکم دیا۔پہلے آپ نے اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا ۔پھر پوچھا: ”تمہیں علم ہے کہ ایمان باللہ کیا چیز ہے؟“ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نےفرمایا ”:یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئیشریک نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا ،زکوۃ دینا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ دینا۔“ نیز آپ نے انہیں کدو ،سبز مٹکے ،تارکول شدہ برتن اور لکڑی کے برتنوں سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا: ”ان باتوں کو یاد رکھو اور انہیں پہنچا دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔“
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جن برتنوں سے منع فرمایا اس وقت ان میں شراب بنائی جاتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا تاکہ انھیں دیکھ کر شراب نوشی کا جذبہ تازہ نہ ہو جائے اور ان میں شراب کے اثرات بھی ختم ہو جائیں پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی کیونکہ ان کے خطرات ختم ہو چکے تھے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے خیر واحد کی حجیت کو ثابت فرمایا ہے۔ ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابند فرمایا کہ یہ احکام تم نے اپنی پیچھے رہنے والی قوم کو پہنچانے ہیں۔ یہ حکم عام ہے ایک آدمی بھی یہ باتیں دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک وفد کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔تقریباً بیس دن مدینہ طیبہ میں قیام کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا :"تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور انھیں دین کی باتیں سکھاؤ۔"(صحیح البخاری اخبار الاحاد حدیث 7246)
سیدنا ابو حمزہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدناابن عباس ؓ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کس قوم کا وفد ہے؟“ انہوں نے کہا: قبیلہ ربیعہ ( کی ایک شاخ) کا ۔ آپ نے فرمایا: ”کسی قسم کی رسوائی یا شرمندگی اٹھائے بغیر اس وفد کو مبارک ہو۔“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضرہیں۔ لہذا آپ ہمیں ایسی باتیں بتائیں جن پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔ پھر انہوں نے مشروبات کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں چار چیزوں سے منع فرمایا اور چار چیزوں کو بجا لانے کا حکم دیا۔پہلے آپ نے اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا ۔پھر پوچھا: ”تمہیں علم ہے کہ ایمان باللہ کیا چیز ہے؟“ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نےفرمایا ”:یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئیشریک نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا ،زکوۃ دینا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ دینا۔“ نیز آپ نے انہیں کدو ،سبز مٹکے ،تارکول شدہ برتن اور لکڑی کے برتنوں سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا: ”ان باتوں کو یاد رکھو اور انہیں پہنچا دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جن برتنوں سے منع فرمایا اس وقت ان میں شراب بنائی جاتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا تاکہ انھیں دیکھ کر شراب نوشی کا جذبہ تازہ نہ ہو جائے اور ان میں شراب کے اثرات بھی ختم ہو جائیں پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی کیونکہ ان کے خطرات ختم ہو چکے تھے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے خیر واحد کی حجیت کو ثابت فرمایا ہے۔ ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابند فرمایا کہ یہ احکام تم نے اپنی پیچھے رہنے والی قوم کو پہنچانے ہیں۔ یہ حکم عام ہے ایک آدمی بھی یہ باتیں دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
یہ مضمون سیدنا مالک بن حویرث ؓ نے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن الجعد نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری ؓ نے کہا کہ اور مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو نضر بن شمیل نے خبر دی‘ کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی‘ ان سے ابو جمرہ نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے۔ انہوں نے ایک بار بیان کیا کہ قبیلہ عبد القیس کا وفد آیا جب وہ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے آنحضرت ﷺ نے پوچھا کس قوم کا وفد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ قبیلہ کا (عبد القیس) اسی قبیلے کا ایک شاخ ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مبارک ہو اس وفد کو یا یوں فرمایا کہ مبارک ہو بلارسوائی اور شر مندگی اٹھائے آئے ہو۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے اور آپ کے بیچ میں مضر کافروں کا ملک پڑتا ہے۔ آپ ہمیں ایسی بات کا حکم دیجئے جس سے ہم جنت میں داخل ہوں اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھی بتائیں۔ پھر انہوں نے شراب کے برتنوں کے متعلق پوچھا تو آنحضرت ﷺ نے انہیں چار چیزوں سے روکا اور چار چیزوں کا حکم دیا۔ آپ نے ایمان با اللہ کا حکم دیا۔ دریافت فرمایا جانتے ہو ایمان باللہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا کہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنے کا (حکم دیا) اور زکوۃ دینے کا۔ میرا خیال ہے کہ حدیث میں رمضان کے روزوں کا بھی ذکر ہے اور غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال) میں دینا اور آپ نے انہیں دباء‘ حنتم‘ مزفت اور نقیر کے برتن (جن میں عرب لوگ شراب رکھتے اور بناتے تھے) کے استعمال سے منع کیا اور بعض اوقات مقیر کہا۔ فرمایا کہ انہیں یاد رکھو اور انہیں پہنچا دو جو نہیں آسکے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
مقیر یعنی قار لگا ہوا قارورہ روغن ہے جو کشتیوں پر ملا جاتا ہے۔ ترجمہ باب اسی فقرے سے نکلتا ہے کہ اپنے ملک والوں کو پہنچا دو کیونکہ یہ عام ہے۔ ایک شخص بھی ان میں کا یہ باتیں دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔ اسی سے خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہوا۔ دباء کدو کا توبنا‘ حنتم سبز لاکھی اور اور رال کا برتن‘ نقیر کریدی ہوئی لکڑی کا برتن۔ اس وقت ان برتنوں میں شراب بنائی جاتی تھی اس لیے آپ نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی روک دیا‘ اب یہ خطرات ختم ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : When the delegate of 'Abd Al-Qais came to Allah's Apostle, he said, "Who are the delegate?" They said, "The delegate are from the tribe of Rabi'a." The Prophet (ﷺ) said, "Welcome, O the delegate, and welcome! O people! Neither you will have any disgrace nor will you regret." They said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Between you and us there are the infidels of the tribe of Mudar, so please order us to do something good (religious deeds) that by acting on them we may enter Paradise, and that we may inform (our people) whom we have left behind, about it." They also asked (the Prophet) about drinks. He forbade them from four things and ordered them to do four things. He ordered them to believe in Allah, and asked them, "Do you know what is meant by belief in Allah?" They said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know best." He said, ''To testify that none has the right to be worshipped except Allah, the One, Who has no partners with Him, and that Muhammad (ﷺ) is Allah's Apostle; and to offer prayers perfectly and to pay Zakat." (the narrator thinks that fasting in Ramadan is included), "and to give one-fifth of the war booty (to the state)." Then he forbade four (drinking utensils): Ad-Duba', Al-Hantam, Al-Mazaffat and An-Naqir, or probably, Al-Muqaiyar. And then the Prophet (ﷺ) said, "Remember all these things by heart and preach it to those whom you have left behind."