Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
96. Chapter: Recitation of the Qur'an (Surat Al-Fatiha) is compulsory for the Imam and the followers, at the home and on journey, in all As-Salat (the prayers) whether the recitation is done silently or aloud
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Recitation of the Qur'an (Surat Al-Fatiha) is compulsory for the Imam and the followers, at the home and on journey, in all As-Salat (the prayers) whether the recitation is done silently or aloud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
757.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی پھر اس نے نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: ’’واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ وہ آدمی واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسے اس نے (پہلے) پڑھی تھی۔ پھر اس نے آ کر نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: ’’واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ پھر اسی طرح تین دفعہ ہوا بالآخر اس نے کہا: قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپ مجھے بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پڑھو۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو، پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور سجدے میں اطمینان سے رہو۔ پھر سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اسی طرح اپنی پوری نماز مکمل کرو۔‘‘
تشریح:
(1) ابو داود کی روایت میں ''مَا تَيَسَّرَ'' کی تفسیر بیان ہوئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:تکبیر تحریمہ کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھ۔ابو داود کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تجھے قرآن یاد ہے تو اس سے کچھ پڑھ، اگر قرآن یاد نہیں تو الحمدلله، الله أكبر اور لا إله إلا الله پڑھتا رہ۔ جب حدیث کے الفاظ کو جمع کیا جاتا ہے تو اس طرح ترتیب بنتی ہے کہ پہلا درجہ سورۂ فاتحہ کا ہے۔ اگر یہ سورت یاد نہیں تو قرآن کریم کی کوئی بھی سورت یا آیت پڑھی جاسکتی ہے۔ اگر بالکل قرآن کریم سے ناواقف ہے تو اللہ کا ذکر اس کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔ (فتح الباري:315/2) حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:یا رسول اللہ ! میں قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں کرسکتا، مجھے قراءت کی جگہ کافی ہونے والی کوئی چیز بتادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لو یہ کلمات کہا کرو:(سبحان الله، والحمدلله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم)(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:832) (2) امام بخاری ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے یہ حدیث مسيئ الصلاة کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر ابن حبان نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’نمازی کے لیے ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔‘‘ نماز میں فاتحہ پڑھنے کی اہمیت اس قدر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاتحہ کو نماز قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور بندہ جو سوال کرے گا، اسے ضرور ملے گا،چنانچہ جب بندہ کہتا ہے:﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ہے۔اور جب بندہ کہتا ہے:﴿الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔اور جب بندہ کہتا ہے :﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے اپنے معاملات میرے سپرد کردیے ہیں۔اور جب بندہ کہتا ہے :﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔پھر جب بندہ کہتا ہے:﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں اسے ضرور دوں گا۔‘‘(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395)، ومسندأحمد:2/241) آخر میں ہم فاتحہ خلف الامام کے قائلین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کاموقف پیش کرتے ہیں:٭کسی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے سوال کیا کہ میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ سائل نے عرض کیا: اگرچہ آپ قراءت کر رہے ہوں؟فرمایا: ہاں، اگرچہ میں قراءت کررہاہوں۔ (المستدرك للحاکم:1/239) ٭ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔ (المصنف لابن أبي شیبة:1/375) ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ اسے آہستہ اپنے جی میں پڑھو۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395)) ٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔(جزءالقراءة، حدیث:57) ٭حضرت انس ؓ بھی امام کے پیچھے قراءت فاتحہ کا حکم دیتے تھے۔(کتاب القراءت للبیھقی،حدیث:231) ٭حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی قراءت فاتحہ خلف الامام کے قائل اور فاعل تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:2/165) ٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بھی یہی موقف تھا۔حضرت مجاہد انھیں امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا کرتے تھے۔(جزءالقراءۃ، حدیث:60)٭ حضرت ابی بن کعب ؓ بھی امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائم وفاعل تھے۔ (جزءالقراءۃ،حدیث:52) نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی مشروعیت اس طرح بھی ثابت ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ﴿٨٧﴾)اور ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ " (الحجر87:15) رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود وضاحت فرمائی ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سات باربار دہرائی جانے والی آیات ہیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4704) مفسر قرآن حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ نماز فرض ہو نفل ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ دہرائی جاتی ہے۔ (تفسیرالطبري:14/39) مذکورہ حدیث وآثار اور تعامل صحابہ کے مقابلے میں فقہائے عراق کا رد عمل بھی ملاحظہ فرمائیں:شیخ الحنفیہ نعمان الوقت شیخ خواہر زادہ فرماتے ہیں کہ اگر مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔معروف حنفی بزرگ عبداللہ البلخی فرماتے ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کے منہ میں مٹی ڈالی جائے بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اس کے دانت توڑ دیے جائیں۔خلاصۂ کیدانی کی مصنف لکھتے ہیں کہ قراءت خلف الامام حرام ہے۔مذکورہ تمام حوالہ جات مولانا عبدالحی لکھنوی کی کتاب امام الکلام سے ماخوذ ہیں۔ در مختار میں منقول ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والا فاسق اور اس کی نماز باطل ہے۔ (در مختار:1/544) مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے صاف صاف اظہار حق کیا ہے، فرماتے ہیں: کسی مرفوع حدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت نہیں ہے اور مخالفین جو بھی مرفوع احادیث پیش کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں یاوہ بالکل بے اصل ہیں۔ (التعلیق الممجد:1/101)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
749
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
757
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
757
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
757
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
نماز میں قراءتِ فاتحہ کے متعلق بعض اہل علم کا موقف ہے کہ نماز میں قراءت فاتحہ فرض نہیں بلکہ مطلق قراءت فرض ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ) : اور قرآن سے جو میسر ہو پڑھو۔"(المزمل20:73) ان کے نزدیک اس آیت کریمہ میں مطلق قراءت کا ذکر ہے اور وہ ایک آیت بھی ہوسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی ترید میں مذکورہ بالا عنوان قائم کیا ہے اور اس کے لیے بڑے محتاط الفاظ کا انتخاب کیا ہے،حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ:" قرآن سے جو میسر ہو پڑھو" سے مراد بھی سورۂ فاتحہ ہے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔(سنن ابی داؤد،الصلاۃ،حدیث:859) اس عنوان میں امام بخاری رحمہ اللہ نے منفرد نمازی،یعنی اکیلے نماز پڑھنے والے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کا حکم امام جیسا ہے۔پھر سفر کی نماز کا بطور خاص ذکر کیا ہے تاکہ یہ وہم نہ کیا جائے کہ شاید اس میں قراءت ضروری نہیں کیونکہ اس میں کچھ رکعات کم ادا کرنے کی اجازت ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کے مذکورہ عنوان میں بڑی جامعیت ہے کہ کوئی بھی نماز ہو اور کوئی بھی شخص ہو،خواہ منفرد ہو،مقتدی ہو یا امام،کسی نمازی کی کوئی نماز قراءت فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔آپ نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام" جزء القراءۃ "ہے۔ہم ان شاءاللہ آئندہ فوائد میں اس سے بھی استفادہ کریں گے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی پھر اس نے نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: ’’واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ وہ آدمی واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسے اس نے (پہلے) پڑھی تھی۔ پھر اس نے آ کر نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: ’’واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ پھر اسی طرح تین دفعہ ہوا بالآخر اس نے کہا: قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپ مجھے بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پڑھو۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو، پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور سجدے میں اطمینان سے رہو۔ پھر سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اسی طرح اپنی پوری نماز مکمل کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ابو داود کی روایت میں ''مَا تَيَسَّرَ'' کی تفسیر بیان ہوئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:تکبیر تحریمہ کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھ۔ابو داود کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تجھے قرآن یاد ہے تو اس سے کچھ پڑھ، اگر قرآن یاد نہیں تو الحمدلله، الله أكبر اور لا إله إلا الله پڑھتا رہ۔ جب حدیث کے الفاظ کو جمع کیا جاتا ہے تو اس طرح ترتیب بنتی ہے کہ پہلا درجہ سورۂ فاتحہ کا ہے۔ اگر یہ سورت یاد نہیں تو قرآن کریم کی کوئی بھی سورت یا آیت پڑھی جاسکتی ہے۔ اگر بالکل قرآن کریم سے ناواقف ہے تو اللہ کا ذکر اس کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔ (فتح الباري:315/2) حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:یا رسول اللہ ! میں قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں کرسکتا، مجھے قراءت کی جگہ کافی ہونے والی کوئی چیز بتادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لو یہ کلمات کہا کرو:(سبحان الله، والحمدلله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم)(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:832) (2) امام بخاری ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے یہ حدیث مسيئ الصلاة کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر ابن حبان نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’نمازی کے لیے ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔‘‘ نماز میں فاتحہ پڑھنے کی اہمیت اس قدر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاتحہ کو نماز قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور بندہ جو سوال کرے گا، اسے ضرور ملے گا،چنانچہ جب بندہ کہتا ہے:﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ہے۔اور جب بندہ کہتا ہے:﴿الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔اور جب بندہ کہتا ہے :﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے اپنے معاملات میرے سپرد کردیے ہیں۔اور جب بندہ کہتا ہے :﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔پھر جب بندہ کہتا ہے:﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں اسے ضرور دوں گا۔‘‘(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395)، ومسندأحمد:2/241) آخر میں ہم فاتحہ خلف الامام کے قائلین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کاموقف پیش کرتے ہیں:٭کسی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے سوال کیا کہ میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ سائل نے عرض کیا: اگرچہ آپ قراءت کر رہے ہوں؟فرمایا: ہاں، اگرچہ میں قراءت کررہاہوں۔ (المستدرك للحاکم:1/239) ٭ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔ (المصنف لابن أبي شیبة:1/375) ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ اسے آہستہ اپنے جی میں پڑھو۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:878 (395)) ٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔(جزءالقراءة، حدیث:57) ٭حضرت انس ؓ بھی امام کے پیچھے قراءت فاتحہ کا حکم دیتے تھے۔(کتاب القراءت للبیھقی،حدیث:231) ٭حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی قراءت فاتحہ خلف الامام کے قائل اور فاعل تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:2/165) ٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بھی یہی موقف تھا۔حضرت مجاہد انھیں امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا کرتے تھے۔(جزءالقراءۃ، حدیث:60)٭ حضرت ابی بن کعب ؓ بھی امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائم وفاعل تھے۔ (جزءالقراءۃ،حدیث:52) نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی مشروعیت اس طرح بھی ثابت ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ﴿٨٧﴾)اور ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ " (الحجر87:15) رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود وضاحت فرمائی ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سات باربار دہرائی جانے والی آیات ہیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4704) مفسر قرآن حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ نماز فرض ہو نفل ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ دہرائی جاتی ہے۔ (تفسیرالطبري:14/39) مذکورہ حدیث وآثار اور تعامل صحابہ کے مقابلے میں فقہائے عراق کا رد عمل بھی ملاحظہ فرمائیں:شیخ الحنفیہ نعمان الوقت شیخ خواہر زادہ فرماتے ہیں کہ اگر مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔معروف حنفی بزرگ عبداللہ البلخی فرماتے ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کے منہ میں مٹی ڈالی جائے بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اس کے دانت توڑ دیے جائیں۔خلاصۂ کیدانی کی مصنف لکھتے ہیں کہ قراءت خلف الامام حرام ہے۔مذکورہ تمام حوالہ جات مولانا عبدالحی لکھنوی کی کتاب امام الکلام سے ماخوذ ہیں۔ در مختار میں منقول ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والا فاسق اور اس کی نماز باطل ہے۔ (در مختار:1/544) مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے صاف صاف اظہار حق کیا ہے، فرماتے ہیں: کسی مرفوع حدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت نہیں ہے اور مخالفین جو بھی مرفوع احادیث پیش کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں یاوہ بالکل بے اصل ہیں۔ (التعلیق الممجد:1/101)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ عمری سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے اپنے باپ ابوسعید مقبری سے بیان کیا، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اس کے بعد ایک اور شخص آیا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جاؤ اور پھر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص واپس گیا اور پہلے کی طرح نماز پڑھی اور پھر آ کر سلام کیا۔ لیکن آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے اس طرح تین مرتبہ کیا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس کے علاوہ اور کوئی اچھا طریقہ نہیں جانتا، اس لیے آپ مجھے نماز سکھا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو پہلے تکبیر تحریمہ کہہ۔ پھر آسانی کے ساتھ جتنا قرآن تجھ کو یاد ہو اس کی تلاوت کر۔ اس کے بعد رکوع کر، اچھی طرح سے رکوع ہو لے تو پھر سر اٹھا کر پوری طرح کھڑا ہو جا۔ اس کے بعد سجدہ کر پورے اطمینان کے ساتھ۔ پھر سر اٹھا اور اچھی طرح بیٹھ جا۔ اسی طرح اپنی تمام نماز پوری کر۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کو ہر باریہ امیدرہی کہ وہ خود درست کرلے گا۔ مگرتین باردیکھ کر آپ نے اسے تعلیم فرمائی۔ ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ تکبیر کہہ پھر سورۃ فاتحہ پڑھ۔ امام احمد وابن حبان کی روایات میں یوں ہے کہ جو توچاہے وہ پڑھ۔ یعنی قرآن میں سے کوئی سورۃ۔ یہیں سے ترجمہ با ب نکلا کہ آپ نے اس کو قرات کا حکم فرمایا۔ قرآن مجید میں سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ یاد ہونے والی سورۃ فاتحہ ہے۔ اسی کے پڑھنے کا آپ نے حکم فرمایا اورآیت قرآن ﴿فاقرءوا ماتیسر منه﴾(المزمل:20) میں بھی سورۃ فاتحہ ہی کا پڑھنا مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) entered the mosque and a person followed him. The man prayed and went to the Prophet (ﷺ) and greeted him. The Prophet (ﷺ) returned the greeting and said to him, "Go back and pray, for you have not prayed." The man went back prayed in the same way as before, returned and greeted the Prophet (ﷺ) who said, "Go back and pray, for you have not prayed." This happened thrice. The man said, "By Him Who sent you with the Truth, I cannot offer the prayer in a better way than this. Please, teach me how to pray." The Prophet (ﷺ) said, "When you stand for Prayer say Takbir and then recite from the Holy Qur'an (of what you know by heart) and then bow till you feel at ease. Then raise your head and stand up straight, then prostrate till you feel at ease during your prostration, then sit with calmness till you feel at ease (do not hurry) and do the same in all your prayers