باب: اس بارے میں کہ رکعت سے اٹھتے وقت زمین کا کس طرح سہارا لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: How to support oneself on the ground while standing after finishing the Rak'a (after the two prostrations))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
824.
حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت مالک بن حویرث ؓ ہمارے پاس آئے اور ہماری اس مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی، نیز فرمایا کہ میں تمہیں نماز پڑھاتا ہوں، میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں لیکن میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے کس طرح دیکھا؟ (راوی حدیث) ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے کہا: تو پھر حضرت مالک بن حویرث ؓ کی نماز کیسی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ہمارے اس شیخ، یعنی عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح۔ ایوب کہتے ہیں کہ وہ شیخ پوری طرح "اللہ أکبر" کہتے اور جب اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھاتے تو بیٹھ جاتے، زمین پر ٹیک لگا کر پھر اٹھتے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ابو قلابہ کے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ ان کی نماز میں دو چیزیں بطور خاص ذکر ہوئی ہیں: ٭ اتمام تکبیر ٭اعتماد علی الارض۔ اتمام تکبیر کے دو معنی ہیں: ٭ نماز کی تمام تکبیرات کا عدد پورا کیا جائے جو چار رکعات میں بائیس تک ہے۔ ٭ اللہ أکبر کو لمبا کیا جائے جو پوری حرکت انتقال پر محیط ہو۔ اعتماد علی الارض کے بھی دو معنی ہیں: ٭ دوران سجدہ میں کہنیوں کو گھٹنوں یا رانوں پر رکھنا جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے باب الاعتماد في السجود میں مراد لیا ہے۔ ٭ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینا۔ اس مقام پر اعتماد علی الأرض کے دوسرے معنی مراد ہیں، چنانچہ شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا ہے کہ سجدے سے فراغت کے بعد زمین پر ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنا امام شافعی ؒ کے نزدیک سنت ہے اور احناف نے اس کی سنیت سے انکار کیا ہے۔ سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت وہ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگا کر اٹھنے کے بجائے سیدھے تیر کی طرح اٹھتے ہیں اور بطور استدلال یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیر کی مانند اٹھتے تھے، لیکن یہ حدیث من گھڑت اور موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں خصیب بن جحدر نامی ایک راوی کذاب ہے، (مجمع الزوائد:135/2، حدیث:2806) نیز یہ روایت صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینے کی صراحت ہے۔ (2) سوال یہ ہے کہ زمین پر ٹیک لگا کر اٹھتے وقت ہاتھوں کی کیفیت کیا ہو؟ کیا کھلے ہاتھوں اٹھنا چاہیے یا مٹھی بند کر کے کھڑے ہونا چاہیے؟ اس کے متعلق ازرق بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو آٹا گوندھنے والے کی طرح مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (غریب الحدیث لأبي إسحاق الحربي، باب عجن:2؍525) اگرچہ اس روایت پر ہیثم بن عمران کی وجہ سے اعتراض کیا گیا ہے لیکن امام ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ (سلسلة الأحادیث الضعیفة:392/2) بعض معاصر اہل علم نے اس کی یہ توجیہ بھی کی ہے کہ آٹا گوندھتے وقت کبھی کھلے ہاتھ بھی استعمال ہوتے ہیں، لہذا کھلے ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن یہ توجیہ امر واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ کھلے ہاتھوں سے آٹا نہیں گوندھا جاتا بلکہ مٹھی بند کر کے اسے گوندھا جاتا ہے۔ اس بنا پر ہماری تحقیق یہی ہے کہ ہر رکعت سے کھڑے ہوتے وقت مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہونا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی عذر یا اس میں دقت ہو تو کھلے ہاتھوں اٹھنے کی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔ علامہ عینی ؒ نے فقہاء کے حوالے سے اس کیفیت کو بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:568/4) (3) اختصار کے ساتھ کیفیت سجدہ حسب ذیل ہے: ٭ سجدے کے لیے جھکتے وقت پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا جائے۔ (مسند أحمد:2/381) ٭ سجدہ کرتے وقت درج ذیل سات اعضاء زمین پر لگنے چاہئیں: (1) پیشانی اور ناک (2-3) دونوں ہاتھ (4-5) دونوں پاؤں (6-7) دونوں گھٹنے۔ (صحیح مسلم ،الصلاة، حدیث:1100(491)) ٭ دوران سجدہ میں ہاتھ زمین پر جبکہ کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی ہوں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1104(494)) ٭ دوران سجدہ میں قدموں کی ایڑیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرک للحاکم:1/228) ٭ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف اور قدم کھڑے ہونے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:828) ٭ سجدے میں دونوں بازو کشادہ، ہاتھ پہلوؤں سے دور، سینہ، پیٹ اور رانیں زمین سے اونچی، پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:963،730) ٭ بحالت سجدہ ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرك للحاکم:244/1) نیز بوقت ضرورت کسی کپڑے پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:385) واضح رہے کہ مرد اور عورت کے لیے سجدے کا یہی طریقہ ہے جو اوپر بیان ہوا ہے، اس کے علاوہ کوئی خاص طریقہ عورت کے لیے کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
814
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
824
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
824
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
824
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت مالک بن حویرث ؓ ہمارے پاس آئے اور ہماری اس مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی، نیز فرمایا کہ میں تمہیں نماز پڑھاتا ہوں، میرا نماز پڑھنے کا ارادہ نہیں لیکن میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے کس طرح دیکھا؟ (راوی حدیث) ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے کہا: تو پھر حضرت مالک بن حویرث ؓ کی نماز کیسی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ہمارے اس شیخ، یعنی عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح۔ ایوب کہتے ہیں کہ وہ شیخ پوری طرح "اللہ أکبر" کہتے اور جب اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھاتے تو بیٹھ جاتے، زمین پر ٹیک لگا کر پھر اٹھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ابو قلابہ کے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کو رسول اللہ ﷺ کی نماز کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ ان کی نماز میں دو چیزیں بطور خاص ذکر ہوئی ہیں: ٭ اتمام تکبیر ٭اعتماد علی الارض۔ اتمام تکبیر کے دو معنی ہیں: ٭ نماز کی تمام تکبیرات کا عدد پورا کیا جائے جو چار رکعات میں بائیس تک ہے۔ ٭ اللہ أکبر کو لمبا کیا جائے جو پوری حرکت انتقال پر محیط ہو۔ اعتماد علی الارض کے بھی دو معنی ہیں: ٭ دوران سجدہ میں کہنیوں کو گھٹنوں یا رانوں پر رکھنا جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے باب الاعتماد في السجود میں مراد لیا ہے۔ ٭ دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینا۔ اس مقام پر اعتماد علی الأرض کے دوسرے معنی مراد ہیں، چنانچہ شاہ ولی اللہ ؒ نے لکھا ہے کہ سجدے سے فراغت کے بعد زمین پر ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنا امام شافعی ؒ کے نزدیک سنت ہے اور احناف نے اس کی سنیت سے انکار کیا ہے۔ سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت وہ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگا کر اٹھنے کے بجائے سیدھے تیر کی طرح اٹھتے ہیں اور بطور استدلال یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیر کی مانند اٹھتے تھے، لیکن یہ حدیث من گھڑت اور موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں خصیب بن جحدر نامی ایک راوی کذاب ہے، (مجمع الزوائد:135/2، حدیث:2806) نیز یہ روایت صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک دینے کی صراحت ہے۔ (2) سوال یہ ہے کہ زمین پر ٹیک لگا کر اٹھتے وقت ہاتھوں کی کیفیت کیا ہو؟ کیا کھلے ہاتھوں اٹھنا چاہیے یا مٹھی بند کر کے کھڑے ہونا چاہیے؟ اس کے متعلق ازرق بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو آٹا گوندھنے والے کی طرح مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (غریب الحدیث لأبي إسحاق الحربي، باب عجن:2؍525) اگرچہ اس روایت پر ہیثم بن عمران کی وجہ سے اعتراض کیا گیا ہے لیکن امام ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ (سلسلة الأحادیث الضعیفة:392/2) بعض معاصر اہل علم نے اس کی یہ توجیہ بھی کی ہے کہ آٹا گوندھتے وقت کبھی کھلے ہاتھ بھی استعمال ہوتے ہیں، لہذا کھلے ہاتھوں سے ٹیک لگا کر اٹھنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن یہ توجیہ امر واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ کھلے ہاتھوں سے آٹا نہیں گوندھا جاتا بلکہ مٹھی بند کر کے اسے گوندھا جاتا ہے۔ اس بنا پر ہماری تحقیق یہی ہے کہ ہر رکعت سے کھڑے ہوتے وقت مٹھی بند کر کے زمین پر ٹیک لگا کر کھڑے ہونا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی عذر یا اس میں دقت ہو تو کھلے ہاتھوں اٹھنے کی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔ علامہ عینی ؒ نے فقہاء کے حوالے سے اس کیفیت کو بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:568/4) (3) اختصار کے ساتھ کیفیت سجدہ حسب ذیل ہے: ٭ سجدے کے لیے جھکتے وقت پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا جائے۔ (مسند أحمد:2/381) ٭ سجدہ کرتے وقت درج ذیل سات اعضاء زمین پر لگنے چاہئیں: (1) پیشانی اور ناک (2-3) دونوں ہاتھ (4-5) دونوں پاؤں (6-7) دونوں گھٹنے۔ (صحیح مسلم ،الصلاة، حدیث:1100(491)) ٭ دوران سجدہ میں ہاتھ زمین پر جبکہ کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی ہوں۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1104(494)) ٭ دوران سجدہ میں قدموں کی ایڑیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرک للحاکم:1/228) ٭ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف اور قدم کھڑے ہونے چاہئیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:828) ٭ سجدے میں دونوں بازو کشادہ، ہاتھ پہلوؤں سے دور، سینہ، پیٹ اور رانیں زمین سے اونچی، پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا رکھیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:963،730) ٭ بحالت سجدہ ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی ہوں۔ (المستدرك للحاکم:244/1) نیز بوقت ضرورت کسی کپڑے پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:385) واضح رہے کہ مرد اور عورت کے لیے سجدے کا یہی طریقہ ہے جو اوپر بیان ہوا ہے، اس کے علاوہ کوئی خاص طریقہ عورت کے لیے کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابو قلابہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ ہمارے یہاں تشریف لائے اور آپ نے ہماری اس مسجد میں نماز پڑھائی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نماز پڑھا رہا ہوں لیکن میری نیت کسی فرض کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ میں صرف تم کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ نبی کریمﷺ کس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایوب سختیانی نے بیان کیا کہ میں نے ابو قلابہ سے پوچھا کہ مالک ؓ کس طرح نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی طرح۔ ایوب نے بیان کیا کہ شیخ تمام تکبیرات کہتے تھے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو تھوڑی دیر بیٹھتے اور زمین کا سہارا لے کر پھر اٹھتے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جلسہ استراحت کر کے پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھتے جیسے بوڑھا شخص دونوں ہاتھوں پر آٹا گوندھنے میں ٹیکا دیتا ہے حنفیہ نے جو اس کے خلاف ترمذی کی حدیث سے دلیل لی کہ آں حضرت اپنے پاؤں کی انگلیوں پر کھڑے ہوتے تھے تو یہ حدیث ضعیف ہے علاوہ اس کے اس سے یہ نکلتا ہے کہ کبھی آپ ﷺ نے جلسہ استراحت کیا اور کبھی نہیں کیا اہل حدیث کا یہی مذہب ہے وہ جلسہ استراحت کو مستحب کہتے ہیں اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ضعف یا علالت کی وجہ سے ایساکیا اور یہ کہنا کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں ہے قیاس ہے بمقابلہ نص اور وہ فاسد ہے۔ (مولانا وحید الزماں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aiyub (RA): Abu Qilaba said, "Malik bin Huwairith came to us and led us in the prayer in this mosque of ours and said, 'I lead you in prayer but I do not want to offer the prayer but just to show you how Allah's Apostle (ﷺ) performed his prayers." I asked Abu Qilaba, "How was the prayer of Malik bin Huwairith?" He replied, "Like the prayer of this Sheikh of ours-- i.e. 'Amr bin Salima." That Sheikh used to pronounce the Takbir perfectly and when he raised his head from the second prostration he would sit for a while and then support himself on the ground and get up.