باب: سلام کے بعد امام اسی جگہ ٹھہر کر(نفل وغیرہ)پڑھ سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The staying of the Imam at his Musalla (praying place) after (finishing the prayer with) Taslim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
850.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سلام پھیرتے تو عورتیں واپس ہو کر اپنے گھروں میں ہو جاتی تھیں قبل ازیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ ابن وہب نے یونس عن ابن شہاب کی سند سے بیان کیا تو ہندفراسیہ کہا۔ اور عثمان بن عمر نے یونس عن الزہری بیان کیا تو ہندقرشیہ کہا۔ زبیدی نے زہری سے روایت کرتے ہوئے ہند بنت حارث قرشیہ کہا اور (یہ بھی کہا کہ) وہ بنو زہرہ کے حلیف معبد بن مقداد کی بیوی تھی اور نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے ہاں اس کا آنا جانا بھی تھا۔ اور شعیب نے امام زہری سے بیان کیا تو ہندقرشیہ کہا جبکہ ابن عتیق نے زہری سے بیان کرتے ہوئے ہندفراسیہ کہا۔ لیث نے کہا کہ یحییٰ بن سعید نے مجھے امام زہری سے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قریش کی ایک خاتون نے نبی ﷺ سے حدیث بیان کی۔
تشریح:
(1) حدیث بیان کرنے کے بعد امام بخاری ؒ نے سندوں کا اختلاف بیان کیا ہے تاکہ ہند کی نسبت کا اختلاف بیان کیا جائے۔ کسی راوی نے اسے فراسیہ اور کسی نے اسے قرشیہ قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس شخص کی تردید کی ہے جو قرشیہ کو تصحیف قرار دیتا ہے کیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے لیکن یہ روایت موصول نہیں۔ بہرحال ہند فراسیہ یا قرشیہ نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے کچھ نہیں سنا۔ (2) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں فرض پڑھے گئے ہوں وہاں نفل وغیرہ بھی پڑھے جا سکتے ہیں، تاہم بہتر ہے کہ دیگر صحیح روایات کے پیش نظر ذرا جگہ تبدیل کر لی جائے یا کچھ گفتگو کر لی جائے تاکہ فرض اور نفل نماز میں اختلاط کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں: ٭ امام کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا پورا پورا خیال رکھے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ خواتین کا خیال رکھتے تھے۔ ٭ ہر اس سبب سے اجتناب کرنا چاہیے جو انسان کو کسی ممنوع کام تک پہنچا دینے والا ہو۔ ٭ ایسے مقامات سے احتراز کرنا چاہیے جہاں انسان پر تہمت یا کوئی الزام لگنے کا خطرہ ہو۔ ٭ راستے میں مردوں کا عورتوں سے اختلاط شریعت کی نظر میں انتہائی مکروہ فعل ہے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں بھی نماز باجماعت ادا کرتی تھیں۔ (فتح الباري:434/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
839
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
850
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
850
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
850
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے اس عنوان سے دو مقاصد ہیں: ٭ امام سلام پھیرنے کے بعد وہیں نفل وغیرہ پڑھ سکتا ہے اسے جگہ بدلنے کی ضرورت نہیں۔ ٭ امام کا لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا ضروری نہیں جیسا کہ عنوان سابق میں تھا۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سلام پھیرتے تو عورتیں واپس ہو کر اپنے گھروں میں ہو جاتی تھیں قبل ازیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ ابن وہب نے یونس عن ابن شہاب کی سند سے بیان کیا تو ہندفراسیہ کہا۔ اور عثمان بن عمر نے یونس عن الزہری بیان کیا تو ہندقرشیہ کہا۔ زبیدی نے زہری سے روایت کرتے ہوئے ہند بنت حارث قرشیہ کہا اور (یہ بھی کہا کہ) وہ بنو زہرہ کے حلیف معبد بن مقداد کی بیوی تھی اور نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے ہاں اس کا آنا جانا بھی تھا۔ اور شعیب نے امام زہری سے بیان کیا تو ہندقرشیہ کہا جبکہ ابن عتیق نے زہری سے بیان کرتے ہوئے ہندفراسیہ کہا۔ لیث نے کہا کہ یحییٰ بن سعید نے مجھے امام زہری سے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قریش کی ایک خاتون نے نبی ﷺ سے حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث بیان کرنے کے بعد امام بخاری ؒ نے سندوں کا اختلاف بیان کیا ہے تاکہ ہند کی نسبت کا اختلاف بیان کیا جائے۔ کسی راوی نے اسے فراسیہ اور کسی نے اسے قرشیہ قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس شخص کی تردید کی ہے جو قرشیہ کو تصحیف قرار دیتا ہے کیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے لیکن یہ روایت موصول نہیں۔ بہرحال ہند فراسیہ یا قرشیہ نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے کچھ نہیں سنا۔ (2) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں فرض پڑھے گئے ہوں وہاں نفل وغیرہ بھی پڑھے جا سکتے ہیں، تاہم بہتر ہے کہ دیگر صحیح روایات کے پیش نظر ذرا جگہ تبدیل کر لی جائے یا کچھ گفتگو کر لی جائے تاکہ فرض اور نفل نماز میں اختلاط کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں: ٭ امام کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا پورا پورا خیال رکھے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ خواتین کا خیال رکھتے تھے۔ ٭ ہر اس سبب سے اجتناب کرنا چاہیے جو انسان کو کسی ممنوع کام تک پہنچا دینے والا ہو۔ ٭ ایسے مقامات سے احتراز کرنا چاہیے جہاں انسان پر تہمت یا کوئی الزام لگنے کا خطرہ ہو۔ ٭ راستے میں مردوں کا عورتوں سے اختلاط شریعت کی نظر میں انتہائی مکروہ فعل ہے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں بھی نماز باجماعت ادا کرتی تھیں۔ (فتح الباري:434/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ابو سعید بن ابی مریم نے کہا کہ ہمیں نافع بن یزید نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ ابن شہاب زہری نے انہیں لکھ بھیجا کہ مجھ سے ہند بن ت حارث فراسیہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی ام سلمہ ؓ نے ( ہندان کی صحبت میں رہتی تھیں ) انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ سلام پھیرتے تو عورتیں لوٹ کر جانے لگتیں اور نبی کریم ﷺ کے اٹھنے سے پہلے اپنے گھروں میں داخل ہوچکی ہو تیںاور ابن وہب نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں ہند بن ت حارث فراسیہ نے خبر دی اور عثمان بن عمر نے کہا کہ ہمیں یونس نے زہری سے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے بیان کیا محمد بن ولید زبیدی نے کہا کہ مجھ کو زہری نے خبر دی کہ ہند بن ت حارث قرشیہ نے انہیں خبر دی۔ اور وہ بن و زہرہ کے حلیف معبد بن مقداد کی بیوی تھی اور نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھی اور شعیب نے زہری سے اس حدیث کو روایت کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے حدیث بیان کی، اور ابن ابی عتیق نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ہند فراسیہ نے بیان کیا۔ لیث نے کہا کہ مجھ سے یحیٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے قریش کی ایک عورت نے نبی کریم سے روایت کر کے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ان سندوں کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ ہند کی نسبت کا اختلاف ثابت کریں کسی نے ان کو فراسیہ کہا کسی نے قرشیہ اور رد کیا اس شخص پر جس نے قرشیہ کو تصحیف قرار دیاکیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے مگر لیث کی روایت موصول نہیں ہے اس لیے کہ ہند فراسیہ یا قرشیہ نے آنحضرت ﷺ سے نہیں سنا مقصد باب وحدیث ظاہر ہے کہ جہاں فرض نماز پڑھی گئی ہو وہاں نفل بھی پڑھی جا سکتی ہے مگر دیگر روایات کی بنا پر ذرا جگہ بدل لی جائے یا کچھ کلام کر لیا جائے تاکہ فرض اور نفل نمازوں میں اختلاط کا وہم نہ ہوسکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Shihab (RA) wrote that he had heard it from Hind bint Al-Harith Al-Firasiya from Um Salama, the wife of the Prophet (ﷺ) (Hind was from the companions of Um Salama) who said, "When the Prophet (ﷺ) finished the prayer with Taslim, the women would depart and enter their houses before Allah's Apostle (ﷺ) departed."