باب:رسول اللہ ﷺکا قبیلہ عبد القیس کے وفد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ ایمان لائیں اور علم کی باتیں یاد رکھیں اور خبر دیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The Prophet (saws) urged the people (mission) of 'Abdul Qais to memorize the faith and the (religious) knowledge (as he explained to them) and to inform (convey) to their people whom they left behind (at home))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مالک بن الحویرث نے فرمایا کہ ہمیں نبی ﷺنے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر انھیں علم ( دین ) سکھاؤ۔
87.
حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا: ’’کون سا وفد ہے یا یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ربیعہ خاندان سے۔ آپ نے قوم یا وفد کو کہا: ’’خوش آمدید، نہ رسوا ہوئے اور نہ ندامت ہی کی کوئی بات ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہم بہت دور دراز کی مسافت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ حائل ہے، اس لیے ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے، لہذا آپ ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس سے مطلع کر دیں اور اس کے سبب ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیاَ پھر فرمایا: ’’تم جانتے ہو ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا ہے۔‘‘ اور انہیں دباء، حنتم اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا۔ شعبہ کا بیان ہے کہ کبھی کبھی ابوجمرہ نے ان کے ساتھ نقیر کا بھی ذکر کیا اور کبھی مزفت کی جگہ مقیر کہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم انہیں خوب یاد رکھو اور ان لوگوں کو مطلع کرو جو تمہارے پیچھے رہ گئے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ تعلیم کو اپنی ذات کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے دو حدیثیں بیان فرمائی ہیں: ایک حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تقریباً بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا جب ہم نے کہا ہم گھر جاناچاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’جاؤ،اپنے گھر والوں کونماز کی تعلیم دو، نیزاس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631) دوسری حدیث وفد عبدالقیس والی ہے جس کی تفصیلات پہلے بھی حدیث :53 کے تحت گزر چکی ہیں۔ آپ نے مامورات اور منہیات کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا کہ ایمان کی باتوں کو اچھی طرح یاد رکھیں اور انھیں اپنے پس ماندگان تک پہنچا دیں۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سازی کے چار برتنوں کے استعمال سے انھیں منع فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے: دباء:کدو سے تیارکردہ پیالے۔ حنتم: بڑے بڑے مٹکے۔مزفت: تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتن۔ نقیر: لکڑی سے تراشے ہوئے لگن۔ حدیث میں تین برتنوں کا ذکر ہوا ہے، اس لیے شعبہ کا بیان ہے کہ ابو جمرہ کبھی کبھی ان کے ساتھ نقیر کا بھی ذکر کرتے تھے۔ مزید وضاحت فرمائی کہ ابوجمرہ کبھی لفظ مزفت استعمال کرتے اور کبھی اس کے بجائے مقیر کہتے۔ دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دونوں الفاظ ترک کردیے ہوں۔ ایسا صرف نقیر میں ہوا کہ کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغ کے لیے پورا عالم دین ہونا ضروری نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو تبلیغ کا حکم دیا تھا وہ تمام دینی باتوں سے واقف نہ تھے بلکہ انھیں صرف چار باتوں کا حکم دیا تھا اور چار ہی باتوں سےمنع کیا تھا۔ ایک حدیث میں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ خواہ وہ ایک قرآنی آیت ہی ہو۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید آیات قرآنی ہی کی تبلیغ مقصود ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی تردید کی اور فرمایا کہ ہر چیز کی تبلیغ کرو، خواہ قرآنی آیت ہو یا حدیث نبوی۔ 4۔ واضح رہے کہ جن برتنوں کے استعمال کےمتعلق یہاں پابندی کا ذکر ہے، اسے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207(977))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
87
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
87
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
87
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
87
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
تعلیم کو اپنی ذات کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔
اور مالک بن الحویرث نے فرمایا کہ ہمیں نبی ﷺنے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر انھیں علم ( دین ) سکھاؤ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا: ’’کون سا وفد ہے یا یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ربیعہ خاندان سے۔ آپ نے قوم یا وفد کو کہا: ’’خوش آمدید، نہ رسوا ہوئے اور نہ ندامت ہی کی کوئی بات ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہم بہت دور دراز کی مسافت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ حائل ہے، اس لیے ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے، لہذا آپ ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس سے مطلع کر دیں اور اس کے سبب ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیاَ پھر فرمایا: ’’تم جانتے ہو ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا ہے۔‘‘ اور انہیں دباء، حنتم اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا۔ شعبہ کا بیان ہے کہ کبھی کبھی ابوجمرہ نے ان کے ساتھ نقیر کا بھی ذکر کیا اور کبھی مزفت کی جگہ مقیر کہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم انہیں خوب یاد رکھو اور ان لوگوں کو مطلع کرو جو تمہارے پیچھے رہ گئے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ تعلیم کو اپنی ذات کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے دو حدیثیں بیان فرمائی ہیں: ایک حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تقریباً بیس دن تک آپ کے ہاں قیام کیا جب ہم نے کہا ہم گھر جاناچاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’جاؤ،اپنے گھر والوں کونماز کی تعلیم دو، نیزاس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 631) دوسری حدیث وفد عبدالقیس والی ہے جس کی تفصیلات پہلے بھی حدیث :53 کے تحت گزر چکی ہیں۔ آپ نے مامورات اور منہیات کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا کہ ایمان کی باتوں کو اچھی طرح یاد رکھیں اور انھیں اپنے پس ماندگان تک پہنچا دیں۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سازی کے چار برتنوں کے استعمال سے انھیں منع فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے: دباء:کدو سے تیارکردہ پیالے۔ حنتم: بڑے بڑے مٹکے۔مزفت: تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتن۔ نقیر: لکڑی سے تراشے ہوئے لگن۔ حدیث میں تین برتنوں کا ذکر ہوا ہے، اس لیے شعبہ کا بیان ہے کہ ابو جمرہ کبھی کبھی ان کے ساتھ نقیر کا بھی ذکر کرتے تھے۔ مزید وضاحت فرمائی کہ ابوجمرہ کبھی لفظ مزفت استعمال کرتے اور کبھی اس کے بجائے مقیر کہتے۔ دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دونوں الفاظ ترک کردیے ہوں۔ ایسا صرف نقیر میں ہوا کہ کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغ کے لیے پورا عالم دین ہونا ضروری نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو تبلیغ کا حکم دیا تھا وہ تمام دینی باتوں سے واقف نہ تھے بلکہ انھیں صرف چار باتوں کا حکم دیا تھا اور چار ہی باتوں سےمنع کیا تھا۔ ایک حدیث میں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ خواہ وہ ایک قرآنی آیت ہی ہو۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید آیات قرآنی ہی کی تبلیغ مقصود ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی تردید کی اور فرمایا کہ ہر چیز کی تبلیغ کرو، خواہ قرآنی آیت ہو یا حدیث نبوی۔ 4۔ واضح رہے کہ جن برتنوں کے استعمال کےمتعلق یہاں پابندی کا ذکر ہے، اسے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207(977))
ترجمۃ الباب:
حضرت مالک بن حویرث ؓ نے کہا: نبی ﷺ نے ہم سے فرمایا: "اب تم لوگ اپنے اہل خانہ کی طرف واپس لوٹ جاؤ اور انہیں تعلیم دو۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا (ایک مرتبہ) ابن عباس ؓ نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انھوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ ﷺ کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ ﷺ نے انھیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انھیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا (ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات نقیر کہتے تھے اور بسا اوقات مقیر۔ (اس کے بعد ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الإیمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب وتحریص سے کام لے سکتا ہے۔ مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Jamra (RA): I was an interpreter between the people and Ibn 'Abbas (RA). Once Ibn 'Abbas (RA) said that a delegation of the tribe of'Abdul Qais came to the Prophet (ﷺ) who asked them, "Who are the people (i.e. you)? (Or) who are the delegates?" They replied, "We are from the tribe of Rabi'a." Then the Prophet (ﷺ) said to them, "Welcome, O people (or said, "O delegation (of 'Abdul Qais).") Neither will you have disgrace nor will you regret." They said, "We have come to you from a distant place and there is the tribe of the infidels of Mudar intervening between you and us and we cannot come to you except in the sacred month. So please order us to do something good (religious deeds) and that we may also inform our people whom we have left behind (at home) and that we may enter Paradise (by acting on them.)" The Prophet (ﷺ) ordered them to do four things, and forbade them from four things. He ordered them to believe in Allah Alone, the Honorable the Majestic and said to them, "Do you know what is meant by believing in Allah Alone?" They replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." Thereupon the Prophet (ﷺ) said, "(That means to testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is His Apostle, to offer prayers perfectly, to pay Zakat, to observe fasts during the month of Ramadan, (and) to pay Al-Khumus (one fifth of the booty to be given in Allah's cause)." Then he forbade them four things, namely Ad-Dubba.' Hantam, Muzaffat (and) An-Naqir or Muqaiyar(These were the names of pots in which alcoholic drinks used to be prepared). The Prophet (ﷺ) further said, "Memorize them (these instructions) and tell them to the people whom you have left behind."