Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: (What is said) regarding the deeds of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک کے اس فرمان کی تشریح کہ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم ( نماز میں ) اپنا منہ پورب یا پچھم کی طرف کر لو بلکہ اصلی نیکی تو اس انسان کی ہے جو اللہ (کی ذات و صفات ) پر یقین رکھے اور قیامت کو برحق مانے اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لائے اور آسمان سے نازل ہونے والی کتاب کو سچا تسلیم کرے۔ اور جس قدر نبی رسول دنیا میں تشریف لائے ان سب کو سچا تسلیم کرے۔ اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے ( حاجت مند ) رشتہ داروں کو اور ( نادار ) یتیموں کو اور دوسرے محتاج لوگوں کو اور ( تنگ دست ) مسافروں کو اور ( لاچاری ) میں سوال کرنے والوں کو اور ( قیدی اور غلاموں کی ) گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی کرتا ہو اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ کسی امر کی بابت وعدہ کریں۔ اور وہ لوگ جو صبر وشکر کرنے والے ہیں تنگ دستی میں اور بیماری میں اور ( معرکہ ) جہاد میں یہی لوگ وہ ہیں جن کو سچا مومن کہا جا سکتا ہے اور یہی لوگ درحقیقت پرہیزگار ہیں۔ یقیناً ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ سے پاکیزگی حاصل کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے کیونکہ ان کے ساتھ صحبت کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو ان کے علاوہ ( زنا یا لواطت یا مشت زنی وغیرہ سے ) شہوت رانی کریں ایسے لوگ حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانت و عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی کامل طور پر حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ جنت الفردوس کی وراثت حاصل کر لیں گے پھر وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
9.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امورایمان کی وضاحت کے لیے پہلے قرآنی آیات کا حوالہ دیا پھر حدیث نبوی کا ذکر فرمایا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ امورایمان وہ چیزیں ہوسکتی ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں، نیز اس حدیث میں ایمان کو درخت سے تشبیہ دے کر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس درخت کی جڑ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله ہے۔اس کے علاوہ دیگر امور ایمان اس کی شاخیں ہیں۔ اس سے مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے تعلق قراردیتے ہیں حالانکہ درخت کی جڑ اور اس کی ٹہنیوں کے درمیان ایک قدرتی ربط ہوتا ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ نہیں کہا جاسکتا۔ جڑ قائم ہے تو پتے اور ٹہنیاں بھی قائم ہیں، اگر جڑ تازہ نہیں تو پتے اور ٹہنیاں بھی مرجھا جاتی ہیں۔ شجر ایمان کی جڑ عقیدہ توحید ہے اور اعمال صالحہ و اخلاق فاضلہ اس کے برگ وبار ہیں۔ اس حدیث سے ایمان اور اعمال صالحہ کا باہمی تعلق اور ایمان کی کمی بیشی ہردو امور ثابت ہوتےہیں۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ ان شعبوں میں سب سے اعلیٰ شعبہ ’’لا إله إلا الله‘‘ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ، راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 153(35)) اس روایت سے ادنیٰ اور اعلیٰ کی تعيین تو ہوگئی لیکن فروع ایمان کی اصل تعداد متعین نہیں ہوئی۔ اس کے متعلق امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ(مذکورہ) حدیث کا معنی سمجھنا چاہا اور میں نے طاعات کو شمار کرنا شروع کیا تو وہ حدیث میں بیان کردہ تعداد سے زائد تھیں، پھر میں نے احادیث کے اعتبار سے نظر ڈالی اور صرف ان اعمال کو شمار کیا جن پر ایمان کا اطلاق کیا گیا تھا توتعداد کم رہی، پھرقرآن کریم میں بیان کردہ ان اعمال کو گنا جن پر ایمان کا لفظ بولا گیا تھا تو تعداد پھر بھی کم رہی، آخر کار قرآن وحدیث کی وہ نیکیاں شمار کیں جو ایمان کے ساتھ مذکور تھیں اور مکررات کو حذف کردیا تو تعداد 69 نکلی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (شرح الکرماني: 84/1) 3۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مستقل ایک کتاب "شعب الایمان" کو مرتب فرمایا ہے جو مطبوع ہے۔ اس میں انہوں نے امور ایمان کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امور ایمان کو اعمال قلب، اعمال لسان اور اعمال بدن پر تقسیم کرتے ہوئے اعمال قلب کی چوبیس (24) شاخیں، اعمال لسان کی سات(7) اور اعمال بدن کی اڑتیس(38) شاخیں تفصیل سے بیان فرمائی ہیں جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔ (فتح الباري: 73/1) لیکن ان تمام شاخوں کی بنیاد ایک ہی چیز ہے یعنی علم وعمل سے اپنے نفس کی تہذیب بایں طور کی جائے کہ اس کی دنیا وآخرت باعث رشک ہو، وہ اس طرح کہ صداقت حق کا عقیدہ رکھے اورعمل وکردار میں سلامت روی اور مستقل مزاجی اختیار کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾’’جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر قائم رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔‘‘(الأحقاف 46: 13) حدیث میں ہے کہ سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی جامع بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ نےفرمایا: ’’کہہ: میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیارکر۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 159(38)) 4۔ حیا طبیعت کے انکسار کا نام ہے جو کسی ایسے خیال یا فعل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جوعرفاً یا شرعاً مذموم سمجھا جاتا ہو، یعنی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے کرنے سے شرعی سبکی ہو۔ یہی وہ شرعی حیا ہے، جو انسان کو اللہ کی بندگی اور حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی حیا انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے حدیث میں ہے کہ حیا خیر کی چیز ہے اور خیر ہی کو لاتی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 156(37)) حدیث میں اس قسم کی حیا کو ایمان کی شاخ قراردیاگیاہے۔ 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کاخصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ جو اخلاق حسنہ ایمان کے لیے مبادی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں حیا بھی ہے بلکہ حیا ایمان کا سرچشمہ ہے کیونکہ انسان جب اپنے وجود اور اپنی صفات کمال پر غور کرتا ہے تو اسے اللہ پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ اگرانسان ان انعامات واحسانات کے باوجود، جو اللہ نے اس پر فرمائے ہیں، اللہ کی ذات پر ایمان نہیں لاتا تو یہ اس کی بہت بڑی بے حیائی ہے، گویا ان احسانات کے پیش نظر اللہ پر ایمان لانا حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ یعنی حیا پہلے ایمان کا سبب بنی، ایمان لانے کے بعد پھر ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ثابت ہوئی کیونکہ انعامات کا مسلسل شکریہ ادا کرتے رہنا بھی حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ اس بنا پر صفت حیا کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا، نیز (شُعْبةٌ) میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، گویا عبارت یوں ہے: اَلـحَيَاءُ شُعْبَةٌ عَظِيمَةُ ’’حیا ایمان کا بڑا شعبہ ہے‘‘ یعنی حیا ایک ایسا شعبہ ہے جس پر بہت سے شعبے مرتب ہوتے ہیں بلکہ حیا ان کے وجود کا سبب بنتی ہے۔حدیث میں اس کی افادیت کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب تم میں حیا نہیں ہے تو جو چاہو کرتے رہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6120) ’’بے حیا باش وہرچہ خواہی کن۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
9
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
9
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
9
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
9
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اسلام میں کچھ چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جنھیں پہلے باب میں بیان کیا گیا ہے اور کچھ چیزوں کو فروع کی حیثیت دی گئی ہے جنھیں اس باب میں بیان کیا جائے گا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لیے لفظ امور استعمال فرمایا ہے نیز اس باب سے ایک شبے کاازالہ بھی مقصود ہے کہ شاید اسلام صرف ان پانچ بنیادی چیزوں ہی کا نام ہے جو پہلے باب میں بیان ہوئی ہیں باقی چیزیں داخل اسلام نہیں ہیں۔حالانکہ تمام اورامرونواہی اسلام کا جز ہیں اور ان پر عمل کرنے سے ایمان میں بالیدگی آتی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ اسلام صرف ان پانچ چیزوں کا نام نہیں بلکہ ان کے علاوہ اورچیزیں بھی اسلام میں داخل ہے۔اس کے علاوہ امام صاحب نے پہلے باب میں مرجیہ کی اجمالاً تردید فرمائی تھی اب اس باب میں واضح طور پر بتانا چاہتے ہیں کہ ایمان چند امور کے مجموعے کانام ہے۔امور ایمان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو طرح کے امور بیان کیے ہیں۔1۔وہ امور جو عین ایمان ہیں۔2۔وہ امور جو عین ایمان تونہیں مگر ایمان کی تکمیل اور اس کے نور میں اضافے کا باعث ہیں۔اور اس میں اطاعت والا ہر فعل داخل ہے۔اہل علم کی زبان میں پہلی صورت میں پائی جانے والی اضافت(نسبت) کو "اضافہ بیانیہ" اور دوسری صورت کی اضافت کو"اضافت لامیہ" کہتے ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے وہ آیات کا حوالہ دیا ہے۔پہلی آیت میں امور ایمان بیان کیے گئے ہیں جبکہ دوسری آیت میں مومن کی چند صفات کا بیان ہے۔لیکن آپ نے اس آیت کو پہلے بیان کیا ہے جس میں ایمان کو"بِرّ"سےتعبیرکیاگیا ہے،حالانكہ دوسری آیت میں مومن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مدعا کے لیے بہت واضح اور صاف ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان اور "بِرّ"ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے متعلق سوال کیا توآپ نے اس آیت "بِرّ"کو تلاوت فرمایا۔( المصنف لعبدالرزاق 128/11۔والمطالب العالیۃ حدیث 3533۔) آیت بر سے مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو ایمان کے بعد اعمال کی کوئی حیثیت نہیں دیتے جبکہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں بہت سی چیزیں داخل ہیں،کیونکہ مجموعی اعتبار سے انسانی کمالات کے تین شعبے ہیں:(الف)۔انسان کے عقائد صحیح ہوں۔ان اعتقادیات کی(مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ.....) الخ سے وضاحت کردی گئی ہے۔(ب)۔انسان کی معاشرتی زندگی مثالی ہو۔اس کے متعلق(وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ.......) الخ۔میں وضاحت کردی گئی ہے۔(ج)۔انسان ہمیشہ تہذیب نفس میں لگا رہے۔اس تہذیب نفس کے دو پہلو ہیں۔1۔فرائض کی ادائیگی،اسے(وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ) میں بیان فرمایا ہے۔2۔حسن اخلاق،اس کے متعلق: (وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ) میں ذکر کیا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اہل ایمان کی صفات کے متعلق جس آیت کا حوالہ دیاہے اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:"یقیناً ایمان والوں نے فلاح پالی،جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں جو لغویات سے منہ موڑلیتے ہیں،جو زکاۃ ادا کرنے والے ہیں ،جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے کیونکہ ان کے متعلق انھیں کوئی ملامت نہیں ہوگی جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں،جواپنی امانتوں اور وعدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔جو اپنی نمازوں کی نگہداشت کرنے والے ہیں۔یہی وارث ہیں جو فردوس کے وارث ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔"( المومنون 23:1/11۔)آیت مذکورہ ان صفات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مومن کا اہل ایمان ہوناکن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمۃ الباب میں مذکورہ دونوں آیات میں کوئی فاصلہ نہیں رکھا اگرچہ بخاری کے بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں(وَقَولُ الله تعالى) کااضافہ ملتا ہے۔یہ انداز شاید اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ پہلی آیت کے آخر میں (الْمُتَّقُونَ) کا لفظ ہے،اس کی تعبیر (قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ) سے کی گئی ہے گویا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں آیات کے ذریعے سے امور ایمان ،یعنی ایمان کی شاخوں کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔( فتح الباری 1/72۔)
اور اللہ پاک کے اس فرمان کی تشریح کہ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم ( نماز میں ) اپنا منہ پورب یا پچھم کی طرف کر لو بلکہ اصلی نیکی تو اس انسان کی ہے جو اللہ (کی ذات و صفات ) پر یقین رکھے اور قیامت کو برحق مانے اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لائے اور آسمان سے نازل ہونے والی کتاب کو سچا تسلیم کرے۔ اور جس قدر نبی رسول دنیا میں تشریف لائے ان سب کو سچا تسلیم کرے۔ اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے ( حاجت مند ) رشتہ داروں کو اور ( نادار ) یتیموں کو اور دوسرے محتاج لوگوں کو اور ( تنگ دست ) مسافروں کو اور ( لاچاری ) میں سوال کرنے والوں کو اور ( قیدی اور غلاموں کی ) گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی کرتا ہو اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ کسی امر کی بابت وعدہ کریں۔ اور وہ لوگ جو صبر وشکر کرنے والے ہیں تنگ دستی میں اور بیماری میں اور ( معرکہ ) جہاد میں یہی لوگ وہ ہیں جن کو سچا مومن کہا جا سکتا ہے اور یہی لوگ درحقیقت پرہیزگار ہیں۔ یقیناً ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ سے پاکیزگی حاصل کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے کیونکہ ان کے ساتھ صحبت کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو ان کے علاوہ ( زنا یا لواطت یا مشت زنی وغیرہ سے ) شہوت رانی کریں ایسے لوگ حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانت و عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی کامل طور پر حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ جنت الفردوس کی وراثت حاصل کر لیں گے پھر وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امورایمان کی وضاحت کے لیے پہلے قرآنی آیات کا حوالہ دیا پھر حدیث نبوی کا ذکر فرمایا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ امورایمان وہ چیزیں ہوسکتی ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں، نیز اس حدیث میں ایمان کو درخت سے تشبیہ دے کر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس درخت کی جڑ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله ہے۔اس کے علاوہ دیگر امور ایمان اس کی شاخیں ہیں۔ اس سے مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے تعلق قراردیتے ہیں حالانکہ درخت کی جڑ اور اس کی ٹہنیوں کے درمیان ایک قدرتی ربط ہوتا ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ نہیں کہا جاسکتا۔ جڑ قائم ہے تو پتے اور ٹہنیاں بھی قائم ہیں، اگر جڑ تازہ نہیں تو پتے اور ٹہنیاں بھی مرجھا جاتی ہیں۔ شجر ایمان کی جڑ عقیدہ توحید ہے اور اعمال صالحہ و اخلاق فاضلہ اس کے برگ وبار ہیں۔ اس حدیث سے ایمان اور اعمال صالحہ کا باہمی تعلق اور ایمان کی کمی بیشی ہردو امور ثابت ہوتےہیں۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ ان شعبوں میں سب سے اعلیٰ شعبہ ’’لا إله إلا الله‘‘ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ، راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 153(35)) اس روایت سے ادنیٰ اور اعلیٰ کی تعيین تو ہوگئی لیکن فروع ایمان کی اصل تعداد متعین نہیں ہوئی۔ اس کے متعلق امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ(مذکورہ) حدیث کا معنی سمجھنا چاہا اور میں نے طاعات کو شمار کرنا شروع کیا تو وہ حدیث میں بیان کردہ تعداد سے زائد تھیں، پھر میں نے احادیث کے اعتبار سے نظر ڈالی اور صرف ان اعمال کو شمار کیا جن پر ایمان کا اطلاق کیا گیا تھا توتعداد کم رہی، پھرقرآن کریم میں بیان کردہ ان اعمال کو گنا جن پر ایمان کا لفظ بولا گیا تھا تو تعداد پھر بھی کم رہی، آخر کار قرآن وحدیث کی وہ نیکیاں شمار کیں جو ایمان کے ساتھ مذکور تھیں اور مکررات کو حذف کردیا تو تعداد 69 نکلی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (شرح الکرماني: 84/1) 3۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مستقل ایک کتاب "شعب الایمان" کو مرتب فرمایا ہے جو مطبوع ہے۔ اس میں انہوں نے امور ایمان کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امور ایمان کو اعمال قلب، اعمال لسان اور اعمال بدن پر تقسیم کرتے ہوئے اعمال قلب کی چوبیس (24) شاخیں، اعمال لسان کی سات(7) اور اعمال بدن کی اڑتیس(38) شاخیں تفصیل سے بیان فرمائی ہیں جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔ (فتح الباري: 73/1) لیکن ان تمام شاخوں کی بنیاد ایک ہی چیز ہے یعنی علم وعمل سے اپنے نفس کی تہذیب بایں طور کی جائے کہ اس کی دنیا وآخرت باعث رشک ہو، وہ اس طرح کہ صداقت حق کا عقیدہ رکھے اورعمل وکردار میں سلامت روی اور مستقل مزاجی اختیار کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾’’جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر قائم رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔‘‘(الأحقاف 46: 13) حدیث میں ہے کہ سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی جامع بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ نےفرمایا: ’’کہہ: میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیارکر۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 159(38)) 4۔ حیا طبیعت کے انکسار کا نام ہے جو کسی ایسے خیال یا فعل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جوعرفاً یا شرعاً مذموم سمجھا جاتا ہو، یعنی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے کرنے سے شرعی سبکی ہو۔ یہی وہ شرعی حیا ہے، جو انسان کو اللہ کی بندگی اور حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی حیا انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے حدیث میں ہے کہ حیا خیر کی چیز ہے اور خیر ہی کو لاتی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 156(37)) حدیث میں اس قسم کی حیا کو ایمان کی شاخ قراردیاگیاہے۔ 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کاخصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ جو اخلاق حسنہ ایمان کے لیے مبادی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں حیا بھی ہے بلکہ حیا ایمان کا سرچشمہ ہے کیونکہ انسان جب اپنے وجود اور اپنی صفات کمال پر غور کرتا ہے تو اسے اللہ پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ اگرانسان ان انعامات واحسانات کے باوجود، جو اللہ نے اس پر فرمائے ہیں، اللہ کی ذات پر ایمان نہیں لاتا تو یہ اس کی بہت بڑی بے حیائی ہے، گویا ان احسانات کے پیش نظر اللہ پر ایمان لانا حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ یعنی حیا پہلے ایمان کا سبب بنی، ایمان لانے کے بعد پھر ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ثابت ہوئی کیونکہ انعامات کا مسلسل شکریہ ادا کرتے رہنا بھی حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ اس بنا پر صفت حیا کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا، نیز (شُعْبةٌ) میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، گویا عبارت یوں ہے: اَلـحَيَاءُ شُعْبَةٌ عَظِيمَةُ ’’حیا ایمان کا بڑا شعبہ ہے‘‘ یعنی حیا ایک ایسا شعبہ ہے جس پر بہت سے شعبے مرتب ہوتے ہیں بلکہ حیا ان کے وجود کا سبب بنتی ہے۔حدیث میں اس کی افادیت کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب تم میں حیا نہیں ہے تو جو چاہو کرتے رہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6120) ’’بے حیا باش وہرچہ خواہی کن۔‘‘
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کر لینے ہی میں نہیں بلکہ حقیقت کے اعتبار سے اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہو۔ اور مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکاۃ کی ادائیگی کرے۔ جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔" (نیز فرمایا: ) "یقینا ان مومنوں نے فلاح پائی (جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں) ۔۔ الخ"
حدیث ترجمہ:
ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انھوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابو عامر عقدی نے، انھوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انھوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا حضرت ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم ﷺ سے آپ نے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیا (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ا میرالمحدثین سابق میں بنیادی چیزیں بیان فرما چکے اب فروع کی تفصیل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے باب میں ’’امور الإیمان‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مرجیہ کی تردید کرنا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ پیش کردہ قرآنی آیات کریمہ میں سے پہلی آیت میں بعض امور ایمان گنائے گئے ہیں اور دوسری آیتوں میں ایمان والوں کی چند صفات کا ذکر ہے۔ پہلی آیت سورۃ بقرۃ کی ہے جس میں دراصل اہل کتاب کی تردید مقصود ہے۔ جنہوں نے تحویل قبلہ کے وقت مختلف قسم کی آواز یں اٹھائی تھیں۔ نصاریٰ کا قبلہ مشرق تھا اور یہود کا مغرب۔ آپﷺ نے مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کو قبلہ قراردیا، پھر مسجد الحرام کو آپ کا قبلہ قرار دیاگیا اور آپ نے ادھر منہ پھیر لیا۔ اس پر مخالفین نے اعتراضات شروع کئے۔ جن کے جواب میں اللہ پاک نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور بتلایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا ہی بالذات کوئی نیکی نہیں ہے۔اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ معاشرتی پاک زندگی اور اخلاق فاضلہ ہیں۔
حافظ ابن حجر نے عبدالرزاق سے بروایت مجاہد حضرت ابوذر ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہو ں نے آنحضرت ﷺ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب میں آیت شریفہ ﴿لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواۖوَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِۗأُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُواۖوَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾(البقرة: 177) ترجمہ اوپر باب میں لکھا جا چکا ہے۔
آیات میں عقائد صحیحہ وایمان راسخ کے بعد ایثار، مالی قربانی، صلہ رحمی، حسن معاشرت، رفاہ عام کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد اعمال اسلام نماز، زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ پھر اخلاق فاضلہ کی ترغیب ہے۔ اس کے بعد صبر واستقلال کی تلقین ہے۔ یہ سب کچھ ’’بر ‘‘ کی تفسیرہے۔ معلوم ہوا کہ جملہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ ارکان اسلام میں داخل ہیں۔ اور ایمان کی کمی وبیشی بہر حال وبہر صورت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مرجیہ جو اعمال صالحہ کو ایمان سے الگ اور بیکا ر محض قرار دیتے ہیں اور نجات کے لیے صرف ’’ایمان‘‘ کو کافی جانتے ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر قرآن وسنت کے خلاف ہے۔
اس پیرایہ میں یہ بیان دوسر ااختیار کیا گیا ہے۔ مقصد ہر دو آیات کا ایک ہی ہے۔ ہاں اس میں بذیل اخلاق فاضلہ، عفت،عصمت شرم وحیا کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس جگہ سے آیت کا ارتباط اگلی حدیث سے ہو رہا ہے جس میں حیا کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت امام نے یہاں ہر دو آیت کے درمیان واؤ عاطفہ کا استعمال نہیں فرمایا۔ مگر بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں و قول اللہ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ اگران نسخوں کو نہ لیا جائے تو حافظ ابن حجر نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ حضرت الامام پہلی آیت کی تفسیر میں المتقون کے بعد اس آیت کو بلا فصل اس لیے نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ متقون کی تفسیر اس آیت کو قرار دے دیا جائے۔ مگر ترجیح واؤ عاطفہ اور و قول اللہ کے نسخوں کو حاصل ہے۔
آیات قرآنی کے بعد حضرت امام نے حدیث نبوی کو نقل فرمایا اور اشارتاً بتلایا کہ امور ایمان ان ہی کو کہا جاناچاہیے جو پہلے کتاب اللہ سے اور پھر سنت رسول سے ثابت ہوں۔ حدیث میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دیکر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں بتلائی گئی ہیں۔ اس میں بھی مرجیہ کی صاف تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے جوڑ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ کی درخت کی جڑمیں اور اس کی ڈالیوں میں ایک ایسا قدرتی ربط ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ جڑ قائم ہے تو ڈالیاں اور پتے قائم ہیں۔ جڑ سوکھ رہی ہے تو ڈالیاں اور پتے بھی سوکھ رہے ہیں۔ ہو بہو ایمان کی یہی شان ہے۔ جس کی جڑ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله ہے۔ اور جملہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وعقائد راسخہ اس کی ڈالیاں ہیں۔ اس سے ایمان واعمال صالحہ کا باہمی لازم ملزوم ہونا اور ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا ہر دو امور ثابت ہیں۔
بعض روایات میں بضع وستون کی جگہ بضع وسبعون ہے اور ایک روایت میں اربع وستون ہے۔ اہل لغت نے بضع کا اطلاق تین اور نو کے درمیان عدد پر کیا ہے۔ کسی نے اس کا اطلاق ایک اور چار تک کیا ہے، روایت میں ایمان کی شاخوں کی تحدید مراد نہیں بلکہ کثیر مراد ہے۔ علامہ طیبی کا یہی قول ہے۔ بعض علماءتحدید مراد لیتے ہیں۔پھر ستون ( 60 ) اور سبعون ( 70 ) اور زائد سبعون کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ زائد میں ناقص بھی شامل ہو جاتا ہے۔بعض حضرات کے نزدیک ستون ( 60 ) ہی متیقن ہے۔ کیونکہ مسلم شریف میں بروایت عبداللہ بن دینار جہاں سبعون کا لفظ آیا ہے بطریق شک واقع ہوا ہے۔
«وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ» میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں۔ جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم، برا، بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو۔ حیا و شرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے۔ بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے۔اسی لیے فرمایا گیا: «إذا لم تستحي فاصنع ما شئت»’’جب تم شرم وحیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو۔‘‘ کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی۔
امام بیہقی نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے۔ جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان وشعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔
علامہ ابن حجرنے ان سب کو اعمال قلب ( دل کے کام ) اعمال لسان ( زبان کے کام ) اعمال بدن ( بدن کے کام ) پر تقسیم فرماکر اعمال قلب کی 24شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں۔ جن کا مجموعہ 69بن جاتا ہے۔ روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ لاإله إلا الله اور ادنیٰ شاخ إماطة الأذی عن الطریق بتلائی گئی ہے۔ اس میں تعلق باللہ اور خدمت خلق کا ایک لطیف اشارہ ہے۔ گویا دونوں لازم وملزوم ہیں۔ تب ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔ خدمت خلق میں راستوں کی صفائی، سڑکوں کی درستگی کو لفظ ادنیٰ سے تعبیر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت خلق کا مضمون بہت ہی وسیع ہے۔ یہ توایک معمولی کام ہے جس پر اشارہ کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے شروع ہوکر اس کی مخلوق پر رحم کرنے اور مخلوق کی ہرممکن خدمت کرنے پر جاکر مکمل ہوتا ہے۔ اس شعر کے یہی معنی ہیں:
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Faith (Belief) consists of more than sixty branches (i.e. parts). And Haya (This term "Haya" covers a large number of concepts which are to be taken together; amongst them are self respect, modesty, bashfulness, and scruple, etc.) is a part of faith".