Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The delegation of ‘Abdul-Qais)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4368.
حضرت ابو جمرہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا: میرا ایک مٹکا ہے جس میں میرے لیے نبیذ، یعنی کھجور کا شربت تیار کیا جاتا ہے۔ میں اسے میٹھا کر کے پیتا رہتا ہوں۔ اگر میں س سے زیادہ پی لوں اور قوم میں دیر تک بیٹھا رہوں تو مجھے خطرہ رہتا ہے کہ مبادا رسوا ہو جاؤں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’قوم کا آنا مبارک ہو، رسوا اور شرمندہ ہو کر نہیں آئے۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے مشرک رہتے ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس حرمت والے مہینوں کے سوا نہیں آ سکتے۔ آپ ہمیں دین کے معاملے میں مختصر مگر جامع احکام بتائیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم جنت میں داخل ہو سکیں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی ان کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا چیز ہے؟ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا، نیز تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرتے رہنا۔ چار چیزوں سے تمہیں منع کرتا ہوں: کدو کے برتن، لکڑی کے بنائے ہوئے برتن، سبز روغن کردہ مٹکے اور تارکول سے روغن شدہ برتنوں میں نبیذ نہ بنایا جائے۔‘‘
تشریح:
1۔ ابو جمرہ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک مٹکے میں کھجور کا نبیذ بناتا ہوں اور اسے پیتا ہوں اور پیتے وقت اس سے نشہ نہیں آتا البتہ زیادہ پینا دیر تک بیٹھنا نشے کا باعث بن سکتا ہے جس سے مجھے یہ خطرہ رہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے رسوانہ ہو جاؤں۔ 2۔ حضرت ابن عباس ؓ کی غرض اس استدلال سے یہ ہے کہ ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی ممانعت اس وجہ سے تھیں کہ ان برتنوں میں نشہ جلدی آجانے کا گمان تھا اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے، اس بنا پر ایسے برتنوں میں نبیذ بنایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان میں جلدی نشہ پیدا ہو جائے۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا مقصد وفد عبدالقیس کی آمد کو ثابت کرنا ہے لیکن وہ دو مرتبہ حاضر ہوئے ہیں پہلی حاضری کے موقع پر کفار مضر حائل ہوئے تھے یا انھوں نے حائل ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا وفود کے سال جب اس قبیلے کی حاضری ہوئی تو انھیں کوئی رکاوٹ نہ تھی کیونکہ اس وقت مکہ فتح ہونے کی وجہ سے کفر کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ حدیث کے تحت بیان کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4184
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4368
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4368
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4368
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس قبیلے کا وفد دو مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پہلی بار 5ہجری میں یا اس سے بھی پہلے اور دوسری بار عام الوفود9 ہجری میں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انداز اور اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عنوان کے تحت ان کی دوسری مرتبہ حاضری کو بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پہلی دفعہ حاضری کا ذکر ہے کیونکہ ان احادیث میں کفار مضر کے حائل ہونے کا ذکر ہے اور وہ فتح مکہ سے پہلے اس پوزیشن میں تھے فتح مکہ کے بعد کفر میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کو آنے جانے سے روک سکے اس وفد کے دونوں مرتبہ آنے کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔اذن اللہ تعالیٰ۔
حضرت ابو جمرہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا: میرا ایک مٹکا ہے جس میں میرے لیے نبیذ، یعنی کھجور کا شربت تیار کیا جاتا ہے۔ میں اسے میٹھا کر کے پیتا رہتا ہوں۔ اگر میں س سے زیادہ پی لوں اور قوم میں دیر تک بیٹھا رہوں تو مجھے خطرہ رہتا ہے کہ مبادا رسوا ہو جاؤں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’قوم کا آنا مبارک ہو، رسوا اور شرمندہ ہو کر نہیں آئے۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ مضر کے مشرک رہتے ہیں، اس لیے ہم آپ کے پاس حرمت والے مہینوں کے سوا نہیں آ سکتے۔ آپ ہمیں دین کے معاملے میں مختصر مگر جامع احکام بتائیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم جنت میں داخل ہو سکیں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی ان کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا چیز ہے؟ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا، نیز تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرتے رہنا۔ چار چیزوں سے تمہیں منع کرتا ہوں: کدو کے برتن، لکڑی کے بنائے ہوئے برتن، سبز روغن کردہ مٹکے اور تارکول سے روغن شدہ برتنوں میں نبیذ نہ بنایا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ابو جمرہ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک مٹکے میں کھجور کا نبیذ بناتا ہوں اور اسے پیتا ہوں اور پیتے وقت اس سے نشہ نہیں آتا البتہ زیادہ پینا دیر تک بیٹھنا نشے کا باعث بن سکتا ہے جس سے مجھے یہ خطرہ رہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے رسوانہ ہو جاؤں۔ 2۔ حضرت ابن عباس ؓ کی غرض اس استدلال سے یہ ہے کہ ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی ممانعت اس وجہ سے تھیں کہ ان برتنوں میں نشہ جلدی آجانے کا گمان تھا اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے، اس بنا پر ایسے برتنوں میں نبیذ بنایا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان میں جلدی نشہ پیدا ہو جائے۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا مقصد وفد عبدالقیس کی آمد کو ثابت کرنا ہے لیکن وہ دو مرتبہ حاضر ہوئے ہیں پہلی حاضری کے موقع پر کفار مضر حائل ہوئے تھے یا انھوں نے حائل ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا وفود کے سال جب اس قبیلے کی حاضری ہوئی تو انھیں کوئی رکاوٹ نہ تھی کیونکہ اس وقت مکہ فتح ہونے کی وجہ سے کفر کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ حدیث کے تحت بیان کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابو عامر عقدی نے خبردی، کہا ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابو حمزہ نے کہ میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ میرے پاس ایک گھڑا ہے جس میں میرے لیے نبیذ یعنی کھجور کا شربت بنایا جاتا ہے۔ میں وہ میٹھے رہنے تک پیا کر تا ہوں۔ بعض وقت بہت پی لیتا ہوں اور لوگوں کے پاس دیر تک بیٹھا رہتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں فضیحت نہ ہو۔ (لوگ کہنے لگےںکہ یہ نشہ باز ہے) اس پر ابن عباس ؓ نے کہا کہ قبیلہ عبد القیس کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا اچھے آ ئے نہ ذلیل ہوئے نہ شرمندہ (خوشی سے مسلمان ہوگئے نہ ہوتے تو ذلت اورشرمندگی حاصل ہوتی۔) انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہمارے اور آپ کے درمیان میں مشرکین کے قبائل پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینے ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں۔ آپ ا ہمیں وہ احکام وہدایات سنادیں کہ اگر ہم ان پر عمل کرتے رہیں تو جنت میں داخل ہوں اور جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آسکے ہیں انہیں بھی وہ ہدایات پہنچا دیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں اللہ پر ایمان لانے کا، تمہیں معلوم ہے اللہ پر ایمان لانا کسے کہتے ہیں؟ اس کی گواہی دینا کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں، نماز قائم کرنے کا، زکٰوۃ دینے، رمضان کے روزے رکھنے اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال کو) اداکر نے کا حکم دیتا ہوں اور میں تمہیں چار چیزوں سے روکتا ہوں یعنی کدو کے تونبے میں اور کرید ی ہوئی لکڑی کے برتن میں اور سبز لاکھی برتن میں اور روغنی برتن میں نبیذ بھگونے سے منع کرتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یہ ایلچی دوبار آئے تھے۔ پہلی باربارہ تیرہ آدمی تھے اور دوسری بار میں چالیس تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے پہنچنے سے پہلے صحابہ ؓ کو ان کے آنے کی خوشخبری بذریعہ وحی سنا دی تھی۔ ان بر تنوں سے اس لیے منع فرمایا کہ ان میں نبیذ کو ڈالاجاتا اور وہ جلد سڑکر شراب بن جایا کرتی تھی۔ اس سے شراب کی انتہائی برائی ثابت ہوئی کہ اس کے برتن بھی گھروں میں نہ رکھے جائیں۔ افسوس ان مسلمانوں پر جو شراب پیتے بلکہ اس کا دھند ا کر تے ہیں۔ اللہ ان کو توبہ کرنے کی توفیق عطاکرے۔ (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Jamra (RA) : I said to Ibn 'Abbas (RA), "I have an earthenware pot containing Nabidh (i.e. water and dates or grapes) for me, and I drink of it while it is sweet. If I drink much of it and stay with the people for a long time, I get afraid that they may discover it (for I will appear as if I were drunk). Ibn 'Abbas (RA) said, "A delegation of Abdul Qais came to Allah's Apostle (ﷺ) and he said, "Welcome, O people! Neither will you have disgrace nor will you regret." They said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! There are the Mudar pagans between you and us, so we cannot come to you except in the sacred Months. So please teach us some orders on acting upon which we will enter Paradise. Besides, we will preach that to our people who are behind us." The Prophet (ﷺ) said, "I order you to do four things and forbid you from four things (I order you): To believe in Allah...Do you know what is to believe in Allah? That is to testify that None has the right to be worshipped except Allah: (I order you also to offer prayers perfectly to pay Zakat; and to fast the month of Ramadan and to give the Khumus (i.e. one-fifth of the booty) (for Allah's Sake). I forbid you from four other things (i.e. the wine that is prepared in) Ad-Dubba, An-Naquir, Az-Hantam and Al-Muzaffat. (See Hadith No. 5O Vol. 1)