تشریح:
(1) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر کے مسح کے متعلق تین قسم کی احادیث ثابت ہیں۔ ان میں سے ایک یہ حدیث ہے جس میں پیشانی کےساتھ پگڑی پر مسح کرنے کی بھی وضاحت ہے، جس سے پتا چلا کہ یہ کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کی غرض معلوم ہوتی ہے۔ صرف پیشانی اور اس کے بقدر سر کا مسح کرنا مشروع نہیں ہے اگرچہ اس روایت سے احناف نے دلیل لی ہے کہ صرف پیشانی پر یا پیشانی کے بقدر (سر کا چوتھائی حصہ) مسح فرض ہے، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پگڑی پر مسح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کر لیا جائے، اور یہ جائز ہے جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد: (۱۹۴/۱) میں ذکر کیا ہے۔ اور گزشتہ حدیث (نمبر ۱۰۴) کے فوائد میں وضاحت کی گئی ہے۔ اور تیسرا پورے سرے کا مسح کرنا جبکہ سر پر پگڑی نہ ہو۔ یہ تینوں طریقے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
(2) اس سے یہ بھی پتا چلا کہ مقتدی امام کو جس حال میں پائے، امام کے ساتھ مل جائے اور جو نماز گزر چکی ہو، وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرے۔
(3) جب امام راتب کسی بنا پر اول وقت سے دیر کر دے تو کوئی دوسرا آدمی اس کی جگہ نماز پڑھا سکتا ہے۔