تشریح:
(1) جس طرح پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں والا بہت ناقص نماز پڑھتا ہے، اسی طرح بندھے ہوئے بالوں والا اپنے بالوں کو ثواب سے محروم رکھتا ہے، بخلاف اس کے اگر وہ بال زمین پر لگتے تو ان کا بھی سجدہ شمار ہوتا اور انھیں ثواب ملتا۔ گویا نماز سے پہلے بھی بالوں کا جوڑا نہیں بنا ہونا چاہیے، چہ جائیکہ کوئی نماز میں ایسے کرے۔
(2) خلاف شرع کام ہوتا دیکھ کر موقع ہی پر تنبیہ کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ یا بالکل سکوت نہیں کرنا چاہیے۔
(3) برائی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے مٹا دینا چاہیے۔
(4) خبر واحد حجت ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه هو وأبو عوانة في
"صحيحيهما") .
إسناده: حدثنا محمد بن سلمة: ثنا ابن وهب عن عمرو بن الحارث أن بكيراً
حدثه أن كريباً مولى ابن عباس حدثه: أن عبد الله بن عباس...
قلت: وهذا سند صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي.
والحديث أخرجه البيهقي (2/102) من طريق المصنف.
وأخرجه هو، ومسلم (2/53) ، وأبو عوانة (2/74) ، والنسائي (1/167) من
طرق أخرى عن ابن وهب... به.
وأخرجه الدارمي (1/320) ، وأحمد (رقم 2768 و 2904) من طرق أخرى
عن ابن الحارث... به؛ وقرن أحمد في رواية بـ (كريب) : شعبة مولى ابن
عباس.
ثم أخرج (رقم 2905) - المرفوع منه فقط- من طريق ابن لهيعة عن بكير.