تشریح:
(1) موزوں پر مسح کرنا اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ شیعہ حضرات ہر حال میں ننگے پاؤں پر مسح کے قائل ہیں اور خوارج ہر حال میں پاؤں دھونے ہی کے قائل ہیں۔ اہل سنت چند شروط کے ساتھ موزوں پر مسح کے قائل و فاعل ہیں اور یہی درست ہے۔
(2) بعض حضرات جو مسح کے قائل نہیں، ان کا کہنا ہے کہ موزوں کے مسح کی روایات سورۂ مائدہ کے نزول سے قبل کی ہیں کیونکہ سورۂ مائدہ میں وضو اور خصوصاً پاؤں دھونے کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موزوں پر مسح کے جواز کے راوی سیدنا جریررضی اللہ عنہ بھی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چالیس (۴۰) دن قبل مسلمان ہوئے۔ ان کا آپ کو مسح کرتے دیکھنا قطعی دلیل ہے کہ موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ اس سے مسلک اہل سنت کی زبردست تائید ہوتی ہے، نیز یہ قرآنی حکم کے منافی بھی نہیں بلکہ قرآن مجید کے الفاظ ﴿وامسحوا برء وسکم وارجلکم﴾(المآئدة:۶:۵) میں أرجلکم کی ایک قراءت مجرور کی بھی ہے۔ اور علماء اس میں یہ تطبیق دیتے ہیں کہ اگر اسے مجرور پڑھا جائے تو اس کا مطلب موزوں پر مسح کرنا ہوگا۔ قرآن مجید اور سب احادیث کو ملانے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاؤں ننگے ہوں تو دھوئے جائیں اگر جرابوں اور موزوں میں ہوں تو ان پر مسح کیا جائے۔ اس طرح آیت وضو اور احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ شیعہ اور خوارج کی بات ماننے سے بہت سی صحیح روایات کا انکار کرنا پڑتا ہے اور یہ گمراہی ہے۔