تشریح:
(1) نماز کے آخری تشہد میں درود پڑھنے پر تو سب امت کا اتفاق ہے، البتہ وجوب و استحباب میں اختلاف ہے۔ محدثین (عمومی طور پر) نماز میں درود کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ صلاۃ کا ساتھی سلام سب کے نزدیک واجب ہے تو درود بھی واجب ہوگا کیونکہ دونوں کا حکم اکٹھا ہے۔ ﴿صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (الأحزاب: ۵۶:۳۳) نیز آپ نے اسے تشہد کی طرح سکھلایا ہے جیسے کہ اگلی روایت میں صراحت ہے: [أمرنا أن نُصلِّيَ عليك] نیز مطلقاً صلاۃ و سلام تو سب کے نزدیک فرض ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے۔ نماز کے علاوہ اس فرض کے لیے کون سا موقع مناسب ہوگا؟ احناف اور کچھ موالک اسے فرض اور واجب نہیں سمجھتے۔ یہ موقف مرجوح ہے۔ احتیاط پہلے مسلک ہی میں ہے کہ اسے کسی حال میں چھوڑا نہ جائے۔
(2) نماز کے علاوہ عام دعا میں بھی پہلے حمد و ثنا کی جائے پھر درود پڑھا جائے اور پھر دعا کی جائے۔
(3) مذکورہ آیت قرآنی ﴿صَلُّوا عَلَيْهِ………﴾ کے عموم سے علماء کے ایک گروہ نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ تشہد اول میں بھی درود شریف پڑھا جائے اور سنن نسائی کی ایک روایت میں بھی نفلی نماز کے تشہد اول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درود پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔ (سنن النسائي مع التعلیقات السلفیۃ، قیام اللیل، کیف الوتر بتسح، حدیث: ۱۱۷۲۱/۲۰۲۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ”احسن البیان“ مطبوعہ الریاض، سعودی عرب، سورۃ الاحزاب ۵۶:۳۳ کے ذیل میں)
(4) نماز میں دعا کرنا مشروع ہے۔
(5) دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا قبولیت دعا کے اسباب میں سے ہے، لہٰذا دعا کرنے والے کو چاہیے کہ اپنی حاجت برآری کے لیے پہلے اللہ کی حمد بیان کرے، پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے، پھر جو چاہے مانگے، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے گا۔ إن شاء اللہ تعالی