تشریح:
(1) اس روایت میں پہلی اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبۂ جمعہ کے آغاز میں کہی جاتی ہے۔ آج کل اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے۔ حدیث میں مذکور تیسری اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبے کی اذان سے کچھ دیر قبل کہی جاتی ہے تاکہ لوگ جمعے کی تیاری کرلیں۔ آج کل اسے پہلی اذان کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں اقامت کو بھی اذان کہا گیا ہے تبھی خطبے کی اذان کو پہلی اذان کہا گیا ہے۔ گویا اقامت دوسری اذان تھی۔
(2) ’’لوگ زیادہ ہوگئے‘‘ مدینہ منورہ کی آبادی آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا تھا جب کہ خطبۂ جمعہ صرف مسجد نبوی ہی میں ہوتا تھا۔ اگر ایک ہی اذان (اذان خطبہ) ہوتی تو شہر کے اطراف سے آنے والے نمازی خطبۂ جمعہ بلکہ نماز جمعہ سے بھی محروم رہ جاتے۔ پھر جمعے کے دن بازار لگتا تھا، لوگ خرید و فروخت میں مشغول ہوتے۔ گھڑیاں تھی نہیں۔ جمعے کے وقت کا محق اندازہ کرتے تھے، اس میں غلطی اور تاخیر کے قوی احتمالات تھے، لہٰذا وہیں بازار میں زوراء پر وقت سے اتنی دیر پہلے اذان کہی جاتی تھی کہ اسے سن کر خریدار جلدی جلدی ضرورت کی چیز خرید کر اور دکاندار سامان سمیٹ کر گھر واپس جائیں۔ پھر غسل اور وضو کریں، کپڑے بدلیں، خوشبو لگائیں اور خطبے سے پہلے پہلے مسجد نبوی میں آکر حسب توفیق نماز پڑھیں۔ ان تفصیلات کو سامنے رکھتے ہئے آج کل خطبے کی اذان سے صرف ۱۵، ۲۰ منٹ پہلے، وہ بھی مسجد کے اندر کہی جاتی ہے، اس کے بارے میں غور کریں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اذان سے اس کا کیا تعلق ہے؟ اور دونوںمیں کون سی مناسبت ہے؟ مزید یہ کہ آج کل گھڑیوں وغیرہ سے یہ ضرورت پوری ہوتی ہے۔ بہرحال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مذکورہ ضرورت کے تحت ایک اذان کا اضافہ فرمایا اور ان کے پاس اس اذان کی نظیر موجود تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ ایک وقت پر اور ایک وقت سے پہلے تاکہ زیادہ مصروفیت والے لوگ پہلی اذان پر اٹھ کھڑے ہوں اور جماعت کے ساتھ مل سکیں۔ ایک اذان کی صورت میں بہت سے لوگ جماعت سے رہ جاتے، لہٰذا ایک اذان وقت سے کچھ دیر قبل کہی جاتی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی کو مدنظر رکھ کر خطبے سے پہلے ایک اذان کا اضافہ فرمایا جسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے قبول فرمایا اور آہستہ آہستہ یہ تمام عالم اسلام میں رائج ہوگئی۔ اور یہ سنت المسلمین بن گئی جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ہر دور کے مجتہدین اور ائمہ کا اجماع میسر رہا ہے۔ گویا یہ اذان ضرورت ہے، خلیفۂ راشد کی سنت ہے اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر اب تک اجماع ہے، لہٰذا مذکورہ بالا پس منظر مدنظر رکھ کر اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ [فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین] (سنن أبي داود، السنۃ، حدیث: ۴۶۰۷)، البتہ اگر کہیں ضرورت محسوس نہ ہو تو ایک ہی اذان پر اکتفا کرنا بہتر ہے کیونکہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ اول و ثانی، ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا عمل بھی یہی تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اس (پہلی اذان) کو بدعت کہنا لغوی معنی کے لحاظ سے ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت کو بدعت کہا تھا، حالانکہ انھوں نے خود اس کو مستقلاً رائج کیا تھا۔ واللہ أعلم۔
(3) ’’زوراء‘‘ بازار میں ایک بلند مکان تھا۔ وہاں یہ اذان کہی جاتی تھی تاکہ بلندی کی وجہ سے سارے مدینہ منورہ میں اذان سنائی دے کیونکہ اس (جمعہ) میں سب اہل مدینہ کی شمولیت ضروری تھی بخلاف دیگر نمازوں کے کہ وہ ہر محلے کی مقامی مساجد میں بھی باجماعت پڑھی جاتی تھیں۔
(4) ’’جاری ہوگیا‘‘ کیونکہ وہ خلیفۂ راشد تھے، لہٰذا لوگوں نے اسے قبول کر لیا۔ بعض روایات کے مطابق مکہ مکرمہ میں حجاج کے دور میں شروع ہوئی اور بصرہ میں زیاد کے دور میں۔ واللہ أعلم۔