تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس فرمان میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ رکعت وتر کے بیان میں کسی راوی سے خطا ہوگئی ہے کیونکہ یہاں دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مقدم بیان کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق صحیح یہ ہے کہ آپ نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے اور ذکرودعا وغیرہ کے بعد آواز کے ساتھ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:۷۴۶) کسی راوی سے تقدیم و تاخیر ہوگئی۔ آگے نو رکعت وتر کے بیان سے بھی اس غلطی کی نشان دہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں مسلم کی روایت کی طرح دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مؤخر بتایا گیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
(2) ”عین قرآن کے مطابق تھے۔“ یعنی قرآن مجید میں جو اخلاق عالیہ فاضلہ تمام انبیاء و صلحا کے بیان کیے گئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سب بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے اور جن چیزوں سے قرآن مجید میں روکا گیا ہے، ان کی گرد بھی آپ کو نہیں پہنچتی تھی۔
(3) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ایک سال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےبھی قیام اللیل کی فرضیت ساقط ہوگئی تھی، مگر قرآن مجید کے الفاظ میں دو امکان ہیں، ایک یہ کہ قیام اللیل صرف صحابہ سے ساقط کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بدستور فرض رہا لیکن یہ مؤقف درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سفروں میں تہجد پڑھنا ثابت نہیں جیسا کہ ایک دفعہ سفر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی سوئے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، کسی کو جاگ نہ آئی، تہجد بروقت پڑھنا تو کجا، نمازفجر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج چڑھے پڑھی، اسی طرح مزدلفہ کی رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد پڑھنا منقول نہیں۔ اس سے تہجد کی فرضیت کے قائلین کا مؤقف مل نظر ٹھہرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ساقط کردی گئی، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔ واللہ أعلم۔
(4) قیام اللیل اور نماز وتر کوئی الگ الگ نمازیں نہیں بلکہ ایک ہی نماز کو وقت کی نسبت سے قیام اللیل کہا گیا اور رکعات کی تعداد کی نسبت سے وتر کہا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں اسی کو تراویح اور عام دنوں میں اسی کو تہجد کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام دنوں میں یہ نماز سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور تہجد کے معنیٰ بھی نیند سے اٹھنا ہیں۔ تراویح اس کو پڑھنے کی کیفیت کے لحاظ سے کہا جاتا ہے، یعنی وقفے وقفے سے آرام کرکے پڑھنا۔ تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد کافی وقفہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل یہ وقفہ تقریباً متروک ہوچکا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں۔
(5) رات کو جو نفل نماز بھی پڑھی جائے گی، اس کی تعداد طاق ہونی چاہیے، پھر ان سب کو وتر ہی کہا جائے گا، البتہ اگر دن کو قضا کرنی ہو تو طاق کے بجائے جفت پڑھی جائے گی کیونکہ طاق نفل نماز رات کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کو گیارہ کے بجائے بارہ رکعت پڑھنا صریح دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر نفل ہیں، فرض نہیں، نیز نفل کی بھی قضا دی جا سکتی ہے۔
(6) ”مجھے علم نہیں“ مقصود یہ ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے جسم اور اس کے آرام و صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ جسم عاجز آجائے گا، پھر نفل تو ایک طرف رہے فرض رہ جانے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
(7) ”اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا“ دراصل اس وقت غلط فہمی کی وجہ سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہن میں سیاسی اختلافات پیدا ہوچکے تھے جس نے ان کو ایک دوسرے سے دور کردیا تھا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین اسی دور کی تلخ یادیں ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی ان اختلافات کی وجہ سے باہم شکر رنجی تھی، البتہ وہ سب نیک نیت تھے۔ رضوان اللہ علیهم اجمعین۔
(8) سلف صالحین ہر کام میں اسوۂ رسول تلاش کرتے تھے کہ ان کی اقتدا کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ وقت بھی دیتے تھے اور علماء سے استفسار بھی کرتے اور اگر سفر کی ضرورت پیش آتی تو سفر بھی کرتے۔ رحمه اللہ۔
(9) جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے اگر اس سے بڑا عالم موجود ہے تو اسے چاہیے کہ سائل کی اس کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔
(10) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں زیادہ جانتی تھیں۔
(11) محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی کرے اگرچہ وہ کم ہی ہو۔
(12) ساری ساری رات عبادت میں گزار دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں بلکہ اپنی آنکھوں، جسم اور اہل عیال کا بھی انسان پر حق ہے، البتہ کبھی کبھار یہ جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، رجاله رجال "الصحيح ". وقد أخرجه مسلم في
"صحيحه"، وكذ ا أبو عوانة؛ دون قوله: قال: قلت: لو علمت...) .
إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا همام: تنا قتادة عن زُرَارة بن أوفى عن
سعد بن هشام.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير أن مسلماً لم
يخرج لحفص بن عمر- وهو أبو عمرو الحَوْضِى-، وهو ثقة ثبت.
والحديث أخرجه مسلم (2/168- 170) ، وأبو عوانة (2/321- 325) ،
والنسائي (1/237) ، وأبن نصر في "قيام الليل " (ص 48) ، وأحمد (6/53) من
طرق عن قتادة... به؛ وعند مسلم زيادة إعداد السواك له.
وتابعه الحسن البصري عن سعد بن هشام... به نحوه.
أخرجه أحمد (6/235) ؛ وصرح الحسن بالتحديث في رواية عنده
(6/168) . وسيأتي في الكتاب (1223) .