قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل للنبی صلی اللہ علیہ وسلم

سنن النسائي: كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ (بَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ)

حکم : صحیح 

1601. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْوَتْرِ فَقَالَ أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ قَالَ عَائِشَةُ ائْتِهَا فَسَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهَا إِلَّا مُضِيًّا فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَاءَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ لِحَكِيمٍ مَنْ هَذَا مَعَكَ قُلْتُ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قُلْتُ ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ وَقَالَتْ نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرًا قَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَيْسَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنْ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ يَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَةً فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا سَلَّمَ فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَيَّ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يَدُومَ عَلَيْهَا وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّى مِنْ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَلَا قَامَ لَيْلَةً كَامِلَةً حَتَّى الصَّبَاحَ وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا فَقَالَ صَدَقَتْ أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كَذَا وَقَعَ فِي كِتَابِي وَلَا أَدْرِي مِمَّنْ الْخَطَأُ فِي مَوْضِعِ وَتْرِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ

مترجم:

1601.

حضرت سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے ملا اور ان سے نماز وتر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: کیامیں تجھے اس شخصیت کے بارے میں نہ بتاؤں جو روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز وتر کو جانتی ہو؟ سعد نے کہا: ہاں، ضرور۔ انھوں نے فرمایا: وہ حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬یں۔ ان سے جاکر پوچھو، پھر واپس آکر مجھے بھی بتاؤ کہ انھوں نے کیا جواب دیا، چنانچہ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ وہ کہنے لگے: میں تو ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ آپ ان دو لڑنے والے گروہوں (عثمانی و علوی) کے بارے میں کچھ بھی نہ کہیں مگر انھوں نے میری بات نہیں مانی بلکہ اپنی مرضی کی۔ میں نے انھیں قسم دی (کہ وہ ضرور چلیں) تو وہ میرے ساتھ چل پڑے اور حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس پہنچے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے ان سے کہا: یہ تمھارے ساتھ کون ہے؟ میں نےکہا: سعد بن ہشام۔ انھوں نے فرمایا: کون سا ہشام؟ میں نے کہا: ہشام بن عامر۔ تو آپ نے ان کےلیے رحمت کی دعا کی اور فرمایا: عامر بہت اچھے انسان تھے۔ میرے ساتھی نے کہا: اے ام المومنین! آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عالیہ کے بارے میں بتائیے۔تو فرمانے لگیں: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں (پڑھتا ہوں) انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے اخلاق عالیہ عین قرآن کے مطابق تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو میرے ذہن میں رسول اللہ ﷺ کے قیام اللیل (رات کی عبادت) کا خیال آیا۔ میں نے کہا: اے ام المومنین! مجھے نبی ﷺ کے قیام اللیل کے بارے میں بتائیے۔ انھوں نے فرمایا: کیا تم یہ سورت (يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ) نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں (پڑھتا ہوں۔) فرمانے لگیں: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں رات کا قیام فرض کیا تھا۔ تو نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ ایک سال تک قیام کرتے رہے حتی کہ ان کے پاؤں سوج گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیتیں (دوسرا رکوع) بارہ مہینے روک رکھیں، پھر ان آیات میں تخفیف نازل فرمائی تو قیام اللیل نفل بن گیا جبکہ پہلے فرض تھا۔ میں نے، پھر اٹھنے کا ارادہ کیا کہ اچانک میرے ذہن میں رسول اللہ ﷺ کی نماز وتر کا خیال آگیا۔ میں نے کہا: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز وتر کے بارے میں بتائیے۔ انھوں نے فرمایا: ہم رات کو آپ کی مسواک اور طہارت کا پانی تیار کرکے رکھ دیتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ جب پسند فرماتا آپ کو جگا دیتا۔ آپ (اٹھ کر) مسواک فرماتے اور وضو کرتے، پھر آٹھ رکعات اس طرح پڑھتے کہ ان میں سے کسی رکعت کے بعد نہیں بیٹھتے تھے مگر آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر اتنی آواز سے سلام کہتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے۔ بیٹا! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں بن گئی، پھر جب رسول اللہ ﷺ کی عمر زیادہ ہوگئی اور بوجھل ہوگئے تو سات رکعات پڑھتے اور سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ بیٹا! اس طرح یہ نو رکعتیں بن گئیں۔ رسول اللہ ﷺ جب کوئی نماز شروع فرمالیتے تو مناسب سمجھتے تھے کہ اسے ہمیشہ پڑھا کریں اور اگر کبھی نیند یا بیماری یا کوئی تکلیف رات کی نماز سے رکاوٹ بن جاتی تو دن کو (بجائے گیارہ کے) بارہ رکعات پڑھ لیتے۔ اور مجھے علم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہو یا کبھی صبح تک ساری رات نماز پڑھتے رہے ہوں یا رمضان المبارک کے علاوہ کبھی پورا مہینہ روزے رکھے ہوں، پھر میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور ان کے سامنے یہ پوری حدیث بیان کی۔ آپ فرمانے لگے: سچ کہا حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے۔ واللہ! اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا تو ضرور جاتا کہ وہ مجھے براہ راست یہ حدیث بیان فرمائیں۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث میری کتاب میں ایسے ہی ہے۔ میں نہیں جانتا آپ ﷺ کے وتر کے بیان میں کس سے غلطی ہوگئی؟