تشریح:
”تین گرہیں“ جب انسان سوتا ہے تو وہ اپنے جسم، طہارت اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔ شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان غافل ہی رہے اگر اسے جاگ آ بھی جائے تو شیطان وساوس کے ذریعے سے اٹھنے نہیں دیتا بلکہ دوبارہ سلا دیتا ہے۔ اگر انسان اللہ کا نام لے کر (ہمت سے) اٹھ بیٹھے تو جسم میں غفلت نہ رہی، وضو کرے تو طہارت حاصل ہوگئی اور نماز شروع کردے تو ذکر الہٰی کے اعلیٰ درجے میں مشغول ہوگیا، لہٰذا ہر قسم کی غفلت دور ہوگئی اور وہ کامل انسان بن گیا۔ جسم میں چستی بھی آگئی اور روح میں تازگی بھی اور اگر وہ سویا رہے یا بستر میں کسمساتا رہے، اٹھنے کی ہمت نہ کرے تو جسم میں چستی آتی ہے نہ روح میں تازگی۔ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے گرہیں لگانے اور ان کے کھلنے سے تعبیر فرمایا ہے۔ قربان جائیں آپ کی فصاحت و بلاغت پر۔ کیا ہی خوب انداز اختیار فرمایا۔ بعض اہل علم نے اس کلام کو ظاہر معنیٰ پر محمول کیا ہے کہ واقعتاً شیطان گرہیں لگاتا ہے اور ان پر پڑھ کر پھونکتا ہے،پھر یہ کھلتی بھی ہیں مگر یہ سب کچھ ہمیں نظر نہیں آتا۔ بعض اہل علم نے اسے استعارے اور تشبیہ سے تعبیر کیا ہے۔ بہرحال اگر شیطان حقیقتاً گرہیں لگائے او وہ کھلیں تو یہ محال بھی نہیں، اس لیے حق یہ ہے کہ کسی قسم کی تاویل کے بغیر حدیث شریف کے صریح الفاظ کے مفہوم ہی کو تسلیم کیا جائے، یہی ایمان بالغیب کا تقاضا اور سلف اہل علم کا شیوہ ہے۔ واللہ أعلم۔