تشریح:
وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعات پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول نہ تھا۔ بہت سی روایات میں ان کا ذکر نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کبھی یہ رکعات پڑھتے، کبھی نہیں۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ ان کو بیٹھ کر ہی پڑھا جائے۔ ممکن ہے آپ تہجد کی لمبی لمبی رکعات میں تھک جانے کی وجہ سے یہ دو رکعات بیٹھ کر پڑھتے ہوں۔ ویسے بھی آپ کو بیٹھ کر نوافل پڑھنے کا ثواب، کھڑے ہوکر پڑھنے کے برابر ملتا تھا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:۷۳۵) ہمیں پورے ثواب کے لیے نوافل کھڑے ہوکر پڑھنے چاہییں، اگرچہ بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ دو رکعات وتر کا تتمہ ہیں، مغرب کی دو سنتوں کی طرح۔ ورنہ آپ نے وتر کو آخر میں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ گویا ان کے باوجود وتر آخر ہی میں رہتے ہیں کیونکہ یہ وتر کے تابع ہیں۔ یا امر استحباب کے لیے ہے اور فعل جواز پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وصححه ابن حبان) .
إسناده: حدثنا وهب بن بقية عن خالد. (ح) وثنا ابن المثنى: ثنا عبد الأعلى:
ثنا هشام عن الحسن عن سعد بن هشام.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين من الوجه الثاني، وعلى شرط
مسلم وحده من الوجه الأول؛ لأن وَهْبَ بن بقية لم يخرج له البخاري.
والحسن: هو البصري، وقد سمعه س سعد بن هشام، كما تقدم تحت
الحديث (1213) ، ويأتي قريباً.
والحديث أخرجه النسائي (1/244) : أخبرنا عمرو بن علي عن عبد الأعلى...
به
وتابعه يزيد- وهو ابن هارون- قال: أنا هشام... به.
أخرجه أحمد (6/235) : ثنا يزيد... به.
وتابعه قتادة عن الحسن قال: أخبرني سعد بن هشام... به مختصراً.
أخرجه أحمد (16/68) ، والنسائي (1/250) .
وتابعه أبو حُرَّةَ عن الحسن عن سعد بن هشام الآنصاري... به نحوه؛ وفيه:
أنه قرأ في الركعتين وهو جالس: { قل يا أيها الكافرون} و { إذا زلزلت} .
أخرجه ابن حبان (668) . لكن أبو حرة- واسممه واصل بن عبد الرحمن-
كان يدلس عن الحسن.
وقراءة السورتين؛ لها شاهد من حديث أبي أمامة بسند حسن، انظر "صفة
الصلاة".