تشریح:
(1) ان الفاظ کا مقصد ان لوگوں کو تنبیہ کرنا تھا جو شدت غم کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی فوت نہیں ہوئے، بے ہوش ہیں۔ یا جو لوگ آپ کی وفات کو عارضی خیال کرتے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں گویا آپ پر ایک اور موت آنی تھی۔ اور یہ ناممکن ہے کہ آپ دو دفعہ فوت ہوں۔
(2) باب کا مقصد یہ ہے کہ مومن موت سے پلید نہیں ہو جاتا بلکہ پاک رہتا ہے، لہٰذا اسے بوسہ دینا اور چھونا جائز ہے جبکہ بعض فقہاء میت کو پلید کہتےہیں لیکن یہ درست نہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: [المسلمُ لا ينجسُ حيًّا ولا ميِّتًا] ”مومن زندہ ہو یا فوت شدہ، پلید نہیں ہوتا۔“ (صحیح البخاري، الجنائز، باب غسل المیت ووضوئه بالماء و السدر، بعد الحدیث: ۱۲۵۲، و مختصر صحیح البخاري، اللألباني، رقم الاثر: ۲۳۹) ہاں کافر مر جائیں تو پلید ہیں۔
(3) میت پر رونا جائز ہے، واویلا، چیخ و پکار اور جاہلیت کی آہ و بکا درست نہیں۔